لرز لرز تو گیا اک چراغ نیم شبی
مگر سنبھل کے جلا اک چراغ نیم شبی
سبھی دلوں میں عجب خوف تھا اندھیرے کا
مگر ذرا نہ ڈرا اک چراغ نیم شبی
میں سوچتا تھا اکیلا ہی جل رہا ہوں یہاں
مرا رفیق ہوا اک چراغ نیم شبی
نجانے کہنا تھا کیا اس نے سونے والوں سے
پکارتا ہی رہا اک چراغ نیم شبی
تپش حروف کی شاید اسی کی لو سے ملی
مری غزل میں جلا اک چراغ نیم شبی
غزل
یہ تحریر 1002 مرتبہ دیکھی گئی