ندی کی روشنی تھی اور چڑیا بولتی تھی
اندھیری رات ریزہ ریزہ آنسو ڈولتی تھی
خموشی جل رہی تھی ہونٹ پہرہ دے رہے تھے
ہوائیں سو رہی تھیں سانس کی لو بولتی تھی
مسافر تھے شبینہ ڈاک کا دفتر کھلا تھا
کہیں حسرت پرانی چھٹیوں کو تولتی تھی
پلک جھپکی تو گھائل چاند آ کر چھپ گیا تھا
گلہری چپکے چپکے ساری شاخیں کھولتی تھی
اداسی ایسی تھی کہ رات پاگل ہو گئ تھی
دکھوں کی کوک دل کے کان میں رس گھولتی تھی