غزل

یہ تحریر 219 مرتبہ دیکھی گئی

کوئی حبیب دل کے اس دیار میں نہ تھا
وہ آ گیا میں جس کے انتظار میں نہ تھا

تری نظر پڑی تو میں بھی کچھ نہ کچھ ہوا
یہیں تھا پہلے میں کسی شمار میں نہ تھا

وہ شور صرف شور تھا خموش ہوگیا
تو کیا کوئی سوار اس غبار میں نہ تھا

یونہی کسی خیال میں پڑا رہا ہوں میں
کسی کی قید میں کسی حصار میں نہ تھا

بھڑک رہی تھی آگ باغ میں۔ ادھر ادھر
ابھی وہ پھول دل کے شعلہ زار میں نہ تھا

پلٹ کے دیکھ سارا شہر ہی بدل گیا
وہی ہوا جو تیرے اختیار میں نہ تھا

وہ رنگ کیسے آ گیا خزاں کے دور میں
جو میری عمر کی کسی بہار میں نہ تھا