جنھیں ہمیشہ رہا سامنا کمینے کا
ہُنر وہ خاک سِکھائیں کسی کو جینے کا
ندامتوں سے تلافی تو ہو نہیں سکتی
یہی بہت ہے، ذرا کم ہو، بوجھ سینے کا
ذرا سی بات پہ دریا بہا رہے ہیں کیوں
لہو اگر مُتَرادف نہیں پسینے کا
بھنور سے دُور ، بہت دُور جس کو رہنا تھا
پتہ نہیں ہے کسی کو بھی اُس سفینے کا
تمھارے ضبط کے شایانِ شان ہے کہ نہیں
کنارِ چشم ہیولا سا آبگینے کا
ہر اِک گناہ کا ہے بار، بے گناہی پر
قتیل کیوں نہ زمانہ ہو اِس قرینے کا
یقین ہے یہ مِرا،عزم بھی ،بشارت بھی
سفرنصیب مُجھے بھی ہو گا مدینے کا
غزل
یہ تحریر 79 مرتبہ دیکھی گئی
