غزل

یہ تحریر 118 مرتبہ دیکھی گئی

اب اس کے خیال میں رہوں گا
دنیا ترے خواب چھوڑ دوں گا

دیکھوں گا نہ بات ہی کروں گا
وہ جو بھی کہے گا میں سنوں گا

درکار مجھے ہے عشق کی آگ
مل جائے تو اس میں جل بجھوں گا

اک وصل کے خواب کا صحیفہ
تنہائی کی رحل پر پڑھوں گا

بے کار دنوں کی تلخیوں کو
اک شام خوشی کی لہر دوں گا

معلوم نہیں ہے جو حقیقت
جاتے ہوئے دن سے پوچھ لوں گا

دیکھوں گا نئے نئے مناظر
ہر سانس میں تازگی بھروں گا

جب آئیں گی رات کی ہوائیں
جاتی ہوئی رت کو روک لوں گا

آنکھوں کے کواڑ کھول عامر
خوابوں کے رنگ تجھ کو دوں گا