کلیوں کی صدا نہ ہو سکوں گا
ہم رنگ- صبا نہ ہو سکوں گا
بیمار ہوں اپنے موسموں کا
میں اپنی دوا نہ ہو سکوں گا
ہوں قرض گزشتہ راحتوں کا
اب تجھ سے ادا نہ ہو سکوں گا
تو مجھ سے خفا رہے گا کب تک
میں تجھ سے خفا نہ ہو سکوں گا
تو چاہے بچھڑ بھی جائے مجھ سے
میں تجھ سے جدا نہ ہو سکوں گا
جب عین بہار میں جلا ہوں
تاعمر ہرا نہ ہو سکوں گا