غزل

یہ تحریر 110 مرتبہ دیکھی گئی

جیتا بھی تمھارا ہے یہ ہارا بھی تمھارا
جیسا بھی ہے اب دل ہے ہمارا بھی تمھارا

دریا میں کوئی چیز ہماری تو نہیں ہے
لہریں بھی تمھاری ہیں کنارا بھی تمھارا

دیکھا تھا جو اک بار أن آنکھوں نے ہماری
ہم دیکھیں گے وہ خوب دوبارہ بھی تمھارا

ہم لوگ تو پس منظرـامکاں کے ہیں پتھر
آنکھیں بھی تمھاری ہیں نظارا بھی تمھارا

جانے وہ خلش کیا تھی ہمیں جس نے جگایا
راتیں بھی تمھاری ہیں ستارا بھی تمھارا