فضاۓ انتظار میں کہیں جلا رہوں گا میں
چراغ ہوں کسی کی راہ دیکھتا رہوں گا میں
اتر چکا ہے تیری یاد کا نشہ سو تیرے بعد
بس ایک رنج کے خمار سے بھرا رہوں گا میں
حقیقتوں کے نغمہ گر زرا مجھے سلا بھے دے
کہ خواب کے دیار میں تو جاگتا رہوں گا میں
کسے مجال میری سوچ کے عمل میں دخل دے
سو اپنے نیک و بد کا آپ ہی خدا رہوں گا میں
وہ روشنی خیال کی وہ لہر سی جمال کی
ہمیشہ دل کے آس پاس دیکھتا رہوں گا میں
یہ رفتگاں کی یاد بھی عجیب یاد یے جسے
بھلا دیا تو اپنے آپ سے جدا رہوں گا میں
اگرچہ بے ثبات و بے نجات ہے یہ زندگی
مگر ثبات اور نجات ڈھونڈتا رہوں گا میں