یاں صرف وہ روا ہے جو اس کو روا لگے
بستی اجڑ رہی ہے تو کیا اس کو کیا لگے
اس کویہ ضدکہ شہرہو اونچی فصیل ہو
اس کی بلا سے اِس میں گھٹن ہو ہوا لگے
کاغذ کی کشتیوں میں کناروں کی آرزو
حیرت کہ لوگ اس پہ کنارے بھی جا لگے
پہلے کب اعتبار تھا موسم کی آنکھ پر
جو اب بدل رہی ہے تو جی کو برا لگے
لو چا ندنی چراغ کی آنکھوں میں پڑگئی
لو شب کے رازدار دریچوں سے آ لگے
ٹوٹے پروں سے پوچھئے ہجرت کی آگ کا
سینے لگی ہو آگ تو گھر قید سا لگے
ہم میر کی زبان سے واقف نہیں ہنوز
اندھوں کو, سیرِ باغ کا چسکا ہے,کیا لگے
زاہد زبورِ زندگی پڑھتا ہوں بار بار
شاید کہ نور آنکھ کا سینے میں آ لگے