غزل

یہ تحریر 170 مرتبہ دیکھی گئی

یاں صرف وہ روا ہے جو اس کو روا لگے
بستی اجڑ رہی ہے تو کیا اس کو کیا لگے

اس کویہ ضدکہ شہرہو اونچی فصیل ہو
اس کی بلا سے اِس میں گھٹن ہو ہوا لگے

کاغذ کی کشتیوں میں کناروں کی آرزو
حیرت کہ لوگ اس پہ کنارے بھی جا لگے

پہلے کب اعتبار تھا موسم کی آنکھ پر
جو اب بدل رہی ہے تو جی کو برا لگے

لو چا ندنی چراغ کی آنکھوں میں پڑگئی
لو شب کے رازدار دریچوں سے آ لگے

ٹوٹے پروں سے پوچھئے ہجرت کی آگ کا
سینے لگی ہو آگ تو گھر قید سا لگے

ہم میر کی زبان سے واقف نہیں ہنوز
اندھوں کو, سیرِ باغ کا چسکا ہے,کیا لگے

زاہد زبورِ زندگی پڑھتا ہوں بار بار
شاید کہ نور آنکھ کا سینے میں آ لگے