غزل

یہ تحریر 81 مرتبہ دیکھی گئی

ہوا ئیں خاک چرائیں گی راز ، اندر کے
کواڑ کھانستے رہتے ہیں رات بھر گھر کے

کہاں گیا وہ، غبا روں کا بیچنے والا
کہاں گئے وہ خریدار اُس فسوں گر کے

ابھی چراغ کی آنکھوں پہ رَم نہیں اترا
ابھی فریب کھلے ہی نہیں مقدر کے

اک آئنے کے بدن پر مڑھی ہوئی حسرت
مری نظر سے لپٹتی تھی بین کر کر کے

یہ آ فتاب کی آنکھوں میں شا م کے سائے
یہ ر یگز ار محبت میں قا فلے ڈر کے

یہ آئنوں کے بدن پر مڑھی ہوئی حیرت
مری نظر سے لپٹتی ہے بین کر کر کے

اب اک گلاب کی ٹھوکر ہی سہہ نہیں پایا
وہی پہاڑ جو سہتا تھا وقت کے چَرکے

میں مفلسی سے لدا اس گلی سے جاتا ہوں
وہ میرے حال کو دیکھے نہیں خدا کر کے

وہ اک خیال کی تہذیب میں گندھا ہوا شعر
جو وہ سناتا ہے لہجے میں روشنی بھر کے

میری نظر میں کوئی دوسرا کہاں جچتا
کہ میں نےدیکھےہیں جلوےکسی مصوَّرکے

وہ رہگزار میں کھیتے ہیں کشتیاں ڈر کی
صدائیں آتی ہوں جن کو کسی سمندر کے