غزل

یہ تحریر 220 مرتبہ دیکھی گئی

رنج فراق یار میں رسوا نہیں ہوا
اتنا میں چپ ہوا کہ تماشا نہیں ہوا

ایسا سفر ہے جس میں کوئی ہم سفر نہیں
رستہ ہے اس طرح کا جو دیکھا نہیں ہوا

مشکل ہوا ہے رہنا ہمیں اس دیار میں
برسوں یہاں رہے ہیں یہ اپنا نہیں ہوا

وہ کام شاہ شہر سے یا شہر سے ہوا
جو کام بھی ہوا ہے وہ اچھا نہیں ہوا

ملنا تھا ایک بار اسے پھر کہیں منیرؔ
ایسا میں چاہتا تھا پر ایسا نہیں ہوا