غزل

یہ تحریر 207 مرتبہ دیکھی گئی

ایسا نہیں کہ وقت نے سب داغ دھو ‏دیے‎
ناسور ہُوئے تُم نے ہمیں زخم جو دیے‎
اُن کی وفا کسی پہ بھی ظاہر نہیں ہُوئی‎
جن کی حماقتوں نے کئی دوست کھو دیے‎
آواز ، رنگ ، لفظ کوئی بھی ہُنر نہ آیا‎
آیا اگر خیال تو چپکے سے رو دیے‎
جب خون ہی سفید ہو تو روشنی کہاں ‏‎
اِک عمر تک جلائے ہیں، ہم نے بھی دو ‏دیے‎
ثابت ہُوا کہ تُم نے بھلایا نہیں ابھی‎
غیروں کے سامنے سہی کچھ طعنے تو دیے‎
صدیوں اُگے گی فصلِ تعصّب زمینِ دِل ‏میں ‏‎
کانٹے اگر نصاب میں اِک بار بو دیے