ایسا نہیں کہ وقت نے سب داغ دھو دیے
ناسور ہُوئے تُم نے ہمیں زخم جو دیے
اُن کی وفا کسی پہ بھی ظاہر نہیں ہُوئی
جن کی حماقتوں نے کئی دوست کھو دیے
آواز ، رنگ ، لفظ کوئی بھی ہُنر نہ آیا
آیا اگر خیال تو چپکے سے رو دیے
جب خون ہی سفید ہو تو روشنی کہاں
اِک عمر تک جلائے ہیں، ہم نے بھی دو دیے
ثابت ہُوا کہ تُم نے بھلایا نہیں ابھی
غیروں کے سامنے سہی کچھ طعنے تو دیے
صدیوں اُگے گی فصلِ تعصّب زمینِ دِل میں
کانٹے اگر نصاب میں اِک بار بو دیے
غزل
یہ تحریر 207 مرتبہ دیکھی گئی
