غزل

یہ تحریر 73 مرتبہ دیکھی گئی

دکھائی دیتے نئے خواب میری آنکھوں میں
جو دیکھتے کبھی احباب میری آنکھوں میں

وہ اشک جو ترے جانے کے بعد بہہ نکلے
نجانے کب سے تھے بے تاب میری آنکھوں میں

وہ جس میں بہنا تھآ یادوں کے اک جزیرے کو
رکا ہوا تھا وہ سیلاب میری آنکھوں میں

چمک رہی تھی کوئی لہر اس کے چہرے پر
اتر رہا تھا کوئی خواب میری آنکھوں میں

کھلا ہوا تھا کوئی پھول اس ہتھیلی پر
رکا ہوا تھا وہ مہتاب میری آنکھوں میں

وہ جس نے مؤج تمنا سمیٹ لی خود میں
بنا ہوا تھا وہ گرداب میری آنکھوں میں

ادھر ادھر سے کئی لوگ دیکھنے آۓ
بہم تھا غم کا سب اسباب میری آنکھوں میں