غزل

یہ تحریر 170 مرتبہ دیکھی گئی

دکھائی دیتے نئے خواب میری آنکھوں میں
جو دیکھتے کبھی احباب میری آنکھوں میں

وہ اشک جو ترے جانے کے بعد بہہ نکلے
نجانے کب سے تھے بے تاب میری آنکھوں میں

وہ جس میں بہنا تھآ یادوں کے اک جزیرے کو
رکا ہوا تھا وہ سیلاب میری آنکھوں میں

چمک رہی تھی کوئی لہر اس کے چہرے پر
اتر رہا تھا کوئی خواب میری آنکھوں میں

کھلا ہوا تھا کوئی پھول اس ہتھیلی پر
رکا ہوا تھا وہ مہتاب میری آنکھوں میں

وہ جس نے مؤج تمنا سمیٹ لی خود میں
بنا ہوا تھا وہ گرداب میری آنکھوں میں

ادھر ادھر سے کئی لوگ دیکھنے آۓ
بہم تھا غم کا سب اسباب میری آنکھوں میں