غزل

یہ تحریر 225 مرتبہ دیکھی گئی

ہم نے بھی اک بار پڑھے تھے خواب تمھاری آنکھوں کے
اب تک دل میں کھلے ہوئے ہیں باب تمھاری آنکھوں کے

ان آنکھوں سے ان آنکھوں تک موسم اچھا رہتا ہے
سب منظر میں دیکھوں گا شاداب تمھاری آنکھوں کے

میں ساحل تک پہنچوں کیسے مجھ سے ساحل دور بہت
مجھ کو گھیرے رہتے ہیں گرداب تمھاری آنکھوں کے

شہر_وصال سے پہلے تو ہر منزل ہے بے تابی کی
کیسے پائیں قرار کہیں بے تاب تمھاری آنکھوں کے

باغ_وجود پہ قطرہ قطرہ وصل برستا رہتا ہے
سارے پیڑ اور پتے ہیں سیراب تمھاری آنکھوں کے