پھول کا رنگ سے کیا رشتہ ہے کیا ناتا ہے
دل میں جب جب یہ خیال آتا ہے، گھبراتا ہے
لوگ کہتے ہیں محبت کو ہے آشفتہ سری
دیکھ لیتے ہیں یہ وحشی بھی کدھر جاتا ہے
جتنے منظر تھے وہ سب خواب ہوئے نیند کے ساتھ
عکس ڈر جائے تو شیشہ بھی مکر جاتا ہے
یہ میرے حق میں ترے شک نے یاوری کر دی
ورنہ اک دل تو کدورت سے بھی بھر جاتا ہے
ایک افسردگی پیڑوں پہ اترتی ہے سرِ شام
کوئی پنچھی جسے پا لے تو وہ ڈر جاتا ہے
سایہ دیوار کا ہم زاد یے اس سے وحشت
کون کرتا ہے؟ بھلا کون ادھر جاتا ہے
چارہ گر میرے لیے کوئی خبر خیر کی بھی
ورنہ جو حال مرا دیکھ لے گھر جاتا ہے؟
چشمِ نظارہ کسی خواب کے منظر پہ نہ ریجھ
یہ وہ افسوں ہے سحر دم جو بکھر جاتا ہے
گل کھلاتی ہے صبا لمس کے بوسے دے کر
جس کو کھلنے کا خیال آئے، نکھر جاتا ہے