غزل

یہ تحریر 181 مرتبہ دیکھی گئی

ویرانے میں آبادی کے نقش بناۓ یادوں نے
دشت دل میں کیسے کیسے پھول کھلاۓ یادوں نے

مستقبل کی فکر میں ہم تو بھول چکے تھے خود کو بھی
بھولے ہوؤں کو خواب پرانے یاد دلاۓ یادوں نے

وہ منظر جو آنکھ سے اوجھل کسی جہان میں زندہ تھے
اندر کی رت بدلی تو پھر سامنے لاۓ یادوں نے

گرتے پتے دیکھ کے رونا ہجر زدوں کا یاد آیا
کلیاں چٹکیں تو ہونٹوں پر گیت سجاۓ یادوں نے

ہم سے لغزش ہو گئی عامر اس کی بات سمجھنے میں
اس کی بات کے کیآ کیا مطلب ہمیں سجھاۓ یادوں نے