سفر چالاک تھا اور نقشۂ آب رواں تھا
انھی لہروں کے دامن میں درِ آفشتگاں تھا
سفر شیب ابی طالب سے آگے آ گیا تھا
مرے اک ہاتھ میں سورج اور اک میں چندرماں تھا
کھڑی تھی کشتۂ حیرت کدہ پے خلق ساری
مرے پیروں کے نیچے چشمۂ آئندگاں تھا
دریدہ آنسوؤں پر خاک پڑتی جا رہی تھی
کوئی قصہ ابھی تک آئنیے کے درمیاں تھا
اداسی سوگواروں سے خیانت کر رہی تھی
سیہ دیوار پر آئینہ خانے کا گماں تھا