خاکدانوں کی ٹھنڈی نحوست پہ کب تک گزارا کریں
آسمانوں کے چارہ گروں سے کہو کچھ ہمارا کریں
دھوپ میں وقت بے وقت نکلا کریں کارخانوں سے ہم
اور چھینی سے جسموں کو کھاتا ہوا زنگ اتارا کریں
دوپہر، باغ امرود کے اور کچے گھروں کی قطار
صحنچوں میں کھڑی بیبیاں واہموں کو بگھارا کریں
ہنستے بستے دریچوں کے جو خواب ہیں رائیگاں تو نہیں
کیوں نا بنجارے۔۔۔ اک روز آوارگی سے کنارا کریں
گھاس ہے، بھوکے قصبے ہیں، افلاس ہے ،حشر کی پیاس ہے
دیوتا گمشدہ راستوں پہ مسافر اتارا کریں
بے مرادی کی پھٹکار چہرے پہ ہے، سر پہ کووں کا غول
زندگی شرط میں ہارنے والے کس کو پکارا کریں
صف بہ صف بچھ رہی نور کی پُستکوں کے امیں، شہ نشیں
مجھ لعیں کے سوالوں کو، گستاخیوں کو گوارا کریں