o
کچھ نہیں عذر گرفتارِ بلا ہونے میں
دل کے خوں ہونے مرے آبلہ پا ہونے میں
اک ذرا اس کو لبِ بام تو آ لینے دو
اتنی ہی دیر ہے اب حشر بپا ہونے میں
لذتِ ہجر بھی یاد آئی ملاقات کے وقت
کیا مزا تھا ترے دو دن کے خفا ہونے میں
جوششِ رنگ سے گلزار ہوا اس کا بدن
کیسی اب دیر ہے وا بند قبا ہونے میں
سامنے بیٹھے ہو جو حکم ہو سر آنکھوں پر
کیسی تاخیر ہے اب مجھ کو سزا ہونے میں
اتنی جلدی بھی کہاں آتے ہیں آدابِ طلب
عمر ہو جاتی ہے لفظوں کے دعا ہونے میں
بات تو کچھ بھی نہ تھی ایک تھی الجھن در پیش
کچھ تردّد تھا اسے میرا بھلا ہونے میں