رمضان فرائض اور ذمہ داریوں کا ایک بارعب مہینا ہوتا ہے جس میں مسلمان خود کو کھانے، پینے اور جنسی خواہشات پر کنٹرول لگانے سے آزماتا ہے۔ رمضان صرف بھوکا اور پیاسا رہنے کا نام نہیں، بلکہ یہ تطہیر نفسی، تقوی، خدا ترسی اور انسان دوستی کا نام ہے۔ رمضان میں انسان کو دوسروں کی غربت و افلاس کا اندازہ ہوتا ہے، جس سے انسان کے دل میں وسیلہ، محبت، برداشت، معافی اور درگزر جیسی الوہی صفات پیدا ہوتی ہیں۔ روزے کے دیگر جسمانی، روحانی، انفرادی اور اجتماعی فوائد اس سے ماورا ہیں۔
روزے کی طرح نماز بھی صرف جسمانی ورزش کا نام نہیں بلکہ یہ مسلمانوں میں نظم و اتحاد اور رہنما کا تصور، باہمی صلح و مشورے اور وقت کی پابندی کا احساس، صفائی اور سکون کی عادت، بندہ کا خدا کو جواب دہ ہونے اور برے کاموں سے پرہیز کرنے کا سلیقہ اور سب سے بڑھ کر فرائض منصبی پورا نہ کرنے کی صورت میں خود کو سزا کا مستحق قرار دینے کی جرات سکھاتی ہے۔
اسی طرح حج اور زکوٰۃ بھی معمولی روایتی احکام نہیں ہیں، بلکہ حج دراصل سال میں ایک مرتبہ تمام صاحب حیثیت عالم اسلام کا ایک لباس میں ملبوس ہونے، اللہ کے گھر کی زیارت کرنے، محمد صل اللہ علیہ والہ و سلم اور انبیاء کرام علیہم السلام کی مقدس مقامات پر حاضری دینے اور دلوں کو اسلام کی اولین عظیم قربانیوں سے منور کرنے کے بعد ایک جگہ اکٹھا ہوکر اپنے درپیش مسائل کو حل کرنے کا نام ہے۔ زکوۃ مسلم معاشرے سے غربت، افلاس، بے روزگاری اور دولت کا ارتکاز ختم کرنے کا بہت بڑا فلسفہ ہے، مگر بدقسمتی سے اس وقت مسلم معاشرے میں اتحاد و نظم ہے نہ دولت کی فراوانی، وقت کی پابندی ہے نہ صفائی کا خیال اور خوش حالی ہے نہ امن و سکون کا وجود ….. دنیا کی تمام برائیوں اور مسائل نے مسلم دنیا کو اپنی گرفت میں لے لیا ہے۔ حالانکہ اسلام ہمیں عدل، مساوات، رحم دلی، برداشت، امن، صلح رحمی اور انسانیت سکھاتا ہے۔
آج تک کلمہ پڑھنے، روزانہ پانچ وقت نماز باجماعت پڑھنے، روزہ رکھنے، حج کرنے اور زکوٰۃ ادا کرنے کے باوجود ہمارے معاشرے میں غربت، ذخیرہ اندوزی، خود ساختہ مہنگائی، عدم برداشت، گھریلو تشدد، قتل و غارت، بم دھماکے، جنگ و جدل، بےاتفاقی اور دشمنیاں پائی جاتی ہیں۔ اس کا واضح مطلب یہ ہے کہ ہم نے اسلامی تعلیمات اور عبادات کو صرف روایتی پریکٹس اور جسمانی ورزش کی حد تک محدود کردیا ہے اور اس کی اصل روح سے ناواقف ہیں۔ ورنہ صحیح معنوں میں باقاعدگی سے نماز، روزہ، حج اور زکوٰۃ ادا کرنے والا معاشرہ مسائل سے دوچار نہیں ہوسکتا۔ بحیثیت مسلمان ہمیں اپنی عبادات اور اعمال کا ازسر نو جائزہ لینا ہوگا۔
اس سال بھی رمضان مسلمانوں میں کوئی قابل ذکر اندرونی تبدیلی لائے بغیر بڑی مایوسی سے رخصت ہونے کو ہے۔ رمضان، الوداع!
آخر میں جون، زریون اور میری طرف سے آپ سب کو بیرونی تبدیلی (زرق برق معطر لباس، چمکیلے جوتے، خوش نما واسکٹ اور مہنگے زیورات) یعنی عید الفطر مبارک ہو!
عید مبارک ہو!
یہ تحریر 145 مرتبہ دیکھی گئی