خاموش ہوں میں پیڑ کی مانند اگرچہ
کہتا ہوں کہانی میں ہواؤں کی زبانی
جو خاک پہ بکھرے ہوئے پتوں پہ لکھی ہے
پر کس نے سنی ہے
انسان یہاں پر کبھی خاموش نہیں ہیں
کرتے ہی چلے جاتے ہیں انصاف کے دعوے
نصفت کے نمونے بھی زمانے میں کہیں ہیں؟
چپ چاپ اور بے بس جو یہاں پیڑ کھڑے ہیں
یہ سوچ رہےہیں
اب ان پہ برسنے کو کلہاڑے جو ہیں تیار
کل آدمیوں پر بھی وہ برسیں گے لگا تار
سنتا ہوں ہواؤں کی زبانی یہ حقیقت
انسان کو حاصل کبھی ہو گی نہیں عبرت!