آج دہلی کی بھیگی ہوئی شام میں صغیر ملال کی یاد کیوں آئی؟ ۔اس سوال کے جواب میں صغیر ملال کی کچھ تحریریں پیش کی جا سکتی ہیں۔ سمجھا یہی جاتا ہے کہ ملاقاتیں اور باتیں حافظے کا سبب بن جاتی ہیں۔بے شک ملاقاتیں اور باتیں وقت کے ساتھ لمبے سفر پر روانہ ہو جاتی ہیں،اگر ان کی بنیاد میں علمی اور تخلیقی گہرائی کے ساتھ اخلاقی جہت بھی شامل ہو۔لیکن علمی اور تخلیقی گہرائی ہی انسانی اور تہذیبی زندگی کا حوالہ تو نہیں ہے۔صغیر ملال کے بارے میں یاد آتا ہے کہ ایک موقع پر ناصر عباس نیر سے گفتگو ہوئی تھی۔اس درمیان صغیر ملال کے سلسلے میں کوئی تحریر مطالعے میں نہیں آئی ۔مجھے پہلی مرتبہ رسالہ “آج: پہلی کتاب” کے وسیلے سے صغیر ملال سے تھوڑی آشنائی ہوئی۔یہ شمارہ اگست 1981 میں منظر عام پر آیا تھا ۔اجمل کمال نے تیرہ غزلوں کے ساتھ صغیر ملال کی تصویر بھی شائع کی تھی۔یہ شمارہ خاصہ دھندلا گیا ہے لیکن صغیر ملال کی غزل اور ان کی تصویر اس دھندلاہٹ میں بہت روشن اور تابناک ہے۔میں نے صغیر ملال کی تصویر کو بہت غور سے دیکھا ہے،ان کی یہ چند غزلیں تصویر کے ساتھ کچھ اور بھی کہتی ہیں۔ایک ایسا شاعر، فکشن نگار اور ترجمہ نگار جسے زندگی نے زیادہ موقع نہیں دیا،اس میں کیسی تخلیقی آگ پوشیدہ تھی۔اتنی مختصر سی زندگی میں صغیر ملال نے جو کچھ لکھا ہے اس کا معیار اس ملال کو کم کر دیتا ہے کہ انہیں اگر کچھ اور وقت ملا ہوتا تو صورتحال بہت مختلف ہوتی۔صغیر ملال کا ملال تو پھر بھی باقی رہتا ہے۔رسالہ آج کا یہ شمارہ کئی برسوں سے میرے ساتھ ساتھ ہے اور اس کا سبب صغیر ملال کی غزلیں اور تصویر ہے۔تعلق کی بنیاد تمام تر کوششوں کے باوجود کبھی کتنی ناپائیدار ہوجاتی ہے۔اور کبھی بغیر کسی خارجی حوالے کے بغیر تعلق کی بنیاد دیر پا اور مضبوط ہو جاتی ہے۔صغیر ملال کے مجموعے یہاں دستیاب نہیں،آن لائن پڑھنے کا تجربہ مشکل وقت میں بہرحال سہارا دیتا ہے۔صغیر ملال کے کچھ ترجمے بھی نگاہ سے گزرے۔مجھے یاد آتا ہے کہ بورخیس کی تحریر “بورخیس اور میں”کہ اردو ترجمے کا ذکر ناصر عباس نیر سے کیا تھا،اور یہ بھی کہا تھا کہ صغیر ملال کا ترجمہ اصل سے زیادہ نزدیک ہے۔ایک دو جملے گو کہ صغیر ملال کے ترجمے سے ندارد ہیں پھر بھی ترجمہ انگریزی کے متن سے زیادہ قریب ہے۔اکادمی ادبیات کہ ایک شمارے میں صغیر ملال کے کئی ترجمے شامل ہیں۔انہیں میں نے بہت توجہ کے ساتھ دیکھا ہے۔
ایک ترجمہ نگار کے طور پر بھی ان کے یہاں ذمہ داری کا شدید احساس ہے۔مجھے نہیں معلوم کہ صغیر ملال کے ترجمے کتابی صورت میں شائع ہوئے یا نہیں۔”آدمی دائروں میں رہتا ہے”صغیر ملال کی نثر اور نظم کی کلیات ہے ۔
پیدائش اور موت کی تاریخ مہینے کی ترتیب سے قریب یا دور ہو جائے،تو ایسے میں ذہن کچھ اور بھی سوچنے لگتا ہے۔صغیر ملال کی پیدائش کی تاریخ 15 فروری 1951ہے۔26 جنوری 1992 کو وہ رخصت ہوئے۔جنوری ،فروری یا فروری جنوری،ایک میں ایک کی ایسی گویائی کبھی کبھی سنائی دیتی ہے۔صغیر ملال نے فکشن اور شاعری دونوں کو اپنے اظہار کا وسیلہ بنایا۔ان کی تحریروں میں جو حوالے ملتے ہیں،وہ یہ بتاتے ہیں کہ ان کی نگاہ عالمی ادب پر بھی تھی۔مجھے نہیں معلوم کہ وہ سائنس کے طالب علم تھے یا نہیں،لیکن ان کی شاعری میں سائنسی شعور کی موجودگی دیکھی جا سکتی ہے۔”نابود”کہ پہلے صفحے پر اور نیچے ہائیڈیگر کا ایک قول درج ہے
The dreadful has already happened
حادثے اور زندگی کے خوفناک حادثے کے بارے میں یہ خیال خوفناک ہونے کے ساتھ ساتھ حوصلہ افزا بھی ہے۔
کل اچانک صغیر ملال کے افسانے کا ابتدائی حصہ سامنے آگیا ۔پہلا صفحہ اپنے دریا کی اتھل پتھل اور فضل الرحمن کی چالاکی کے ساتھ کچھ اس طرح گرفت میں لینے لگا کہ اس سے آگے بڑھنے کی فوری طور پر ضرورت محسوس نہیں ہوئی۔شام بدستور سر اوپر آگئی تھی اور مجھے بہتے دریا کا خیال آس پاس کی دنیا کی طرف متوجہ کرتا رہا۔صغیر ملال نے بہتے دریا کے ساتھ صدیوں کا فاصلہ دیکھا ہے یا صدیوں کا فاصلہ طے کیا ہے۔سنا ہے کہ اب افسانوں کے دن پورے ہو گئے ہیں،اور ناول نے ہر طرف سے گھیر لیا ہے۔مجھے صغیر ملال کا افسانہ اس لیے افسانہ معلوم نہیں ہوا کہ اس میں افسانے کی کوئی صورت ہے یا خود صغیر ملال نے اسے بطور افسانہ پیش کیا ہے۔کبھی ناول کا کوئی ایک حصہ افسانے کی طرح متاثر کرتا ہے۔اور ہم اسے کبھی کبھی پورے ناول سے کاٹ کر دیکھتے ہیں،یا یہ خود کٹا ہوا معلوم ہوتا ہے۔
“صدیوں سے ایک ہی راستے پہ بہتے دریا نے کل شام سے اپنا رخ بدلنا شروع کر دیا ہے۔فضل الرحمن اس بات کا عینی گواہ ہے لیکن وہ یہ بات کسی کو نہیں بتا سکتا کیونکہ وہ جانتا ہے کہ جب تفتیش کا دائرہ پھیلتا ہے تو ہر عینی گواہ مشکوک کی حیثیت سے پرکھا جاتا ہے اور فضل الرحمن ان لوگوں میں سے ہے جنہیں دنیا میں اپنی موجودگی پر کئی بار معذرت کرنی پڑتی ہے۔اگر دریا کے رخ بدلنے کا کوئی علاج ممکن ہوتا تو فضل الرحمن یہ بات وردی والوں کو بتا دیتا لیکن اسے معلوم تھا کہ دریاؤں کو رخ بدلنے سے نہیں روکا جا سکتا،اور جو آبادی ختم ہونے والی تھی اسے وہ وقت سے پہلے پریشان نہیں کرنا چاہتا تھا۔شہر کے دروازے پر سپاہیوں نے فضل الرحمان سے کسی انہونی کے بارے میں پوچھا بھی تھا لیکن اس نے دیکھا تھا کہ ڈوبتے سورج کے سامنے لہراتے پرچم کا سایہ طویل ہو گیا ہے اور ایک بلی اس سائے کو کوئی تڑپتا جانور سمجھ کر اسے بیکار نوچنے میں مصروف ہے اور سپاہی اس بات سے بے خبر ہیں۔فضل الرحمن کو خیال آیاکہ شاید سپاہی اس بات سے بھی بے خبر ہوں گے کہ سورج غروب ہو رہا ہے۔”
افسانے کا عنوان اور افسانے کی تاریخ دونوں یہاں سے غائب ہے لیکن اس غیاب کی موجودگی کی اپنی ایک طاقت اور اپنا ایک حسن ہے۔صغیر ملال نے غروب شام کے منظر کو دریا کے ساتھ جس نظر سے دیکھا ہے،وہ ایک گہری سیاسی اور سماجی صورتحال کا غماز ہے۔نظر موجودہ صورتحال کو دیکھتی ہوئی کتنی دور نکل جاتی ہے،اور وہ اپنی واپسی کا انتظار بھی کچھ اس طرح کرتی ہے کہ جیسے اس کا حسن اس کی اپنے وقت کے ساتھ موجود ہوناہے۔عجیب بات ہے کہ اس نظر کا وقت صرف وہی نہیں ہے جسے ہم اپنا وقت اور اپنا زمانہ کہتے ہیں۔صغیر ملال نے اس اقتباس میں لفظ دائرہ استعمال کیا ہے۔یہ کوئی واقعہ تو نہیں ہے لیکن اس کا رشتہ اس دائرے سے قائم ہو جاتا ہے جو ان کی شاعری میں بار بار اپنی موجودگی درج کراتا ہے۔صغیر ملال کے ذہن پر دائرے کا ایک خاص اثر تھا ۔دائرے میں رہ کر سوچنا ایک اخلاقی مسئلہ ہے لیکن صغیر ملال نے دائرے کو جس اخلاقیات سے وابستہ کر کے دیکھا ہے اس میں حقیقت پسندی بھی ہے اور خیال کی پھیلتی ہوئی دنیا بھی۔دائرے سے ذہن میں ساخت کا جو تصور ابھرتا ہے وہ بہت سامنے کی بات ہے۔صغیر ملال کی نگاہ میں دائرہ وقت کے ساتھ سمٹتا اور پھیلتا رہا۔دائرہ زندگی کی گرفتاری کا استعارہ ہے یا دائرہ اپنی وسعت کے ساتھ انسانی ذہن اور انسانی زندگی کو مخصوص انداز سے سوچنے کا موقع فراہم کرتا ہے۔صغیر ملال کو دائرے میں رہ کر سوچنے کا خیال بھی آیا ہوگا۔میں اس تلاش میں تھا کہ اس دائرے کا کچھ پتہ معلوم ہو کہ آخر کس طرح ان کی تخلیقی سرگرمی کا حصہ بنا۔دائرہ اپنی تنگی اور وسعت کے ساتھ کب سے موجود ہے،انسانی زندگی کا طویل تر سفر اسی تنگی اور وسعت کے ساتھ جاری رہا ہے۔یہ نگاہ کی بلندی اور نگاہ کی تنگی دراصل دائرے میں رہ کر سوچنا اور دائرے سے ماورا جا کر دیکھنا اور سوچناہے۔
آخری تجزیہ یہی ہے ملال
آدمی دائروں میں رہتا ہے
یہ تجزیہ صرف ملال کا نہیں بلکہ انسانی زندگی کا ہے۔دائرے کو توڑنے یا اس سے نکلنے کی خواہش،دراصل ایک نئی اور اجنبی دنیا کی طرف قدم بڑھانا ہے۔اسی لیے صغیر ملال کے یہاں دائرہ زندگی کی تنگی اور یکسانیت کا استعارہ بھی معلوم ہوتا ہے۔دائرے انسانوں کے لیے فطرت بناتی ہے یا خود انسان بناتا ہے۔یہ وہ سوال ہے جس کا رشتہ تاریخ،تہذیب اور سیاست سے قائم ہو جاتا ہے۔
ٹھہریں کہاں کہ زیست کی ہے شکل دائرے
حرکت یہی رہے گی یوں ہی ہوں گے فاصلے
دائرے کا گھومنا یاد دائروں میں رہنا ایک طرح کی لامرکزیت ہے۔گو کہ اس کا اپنا ایک مرکز ہے مگر جو گھومتی ہوئی شکل اور شے ہے اس میں ہر لمحہ تغیر اور تبدیلی کی روش کچھ اور سوچنے پر مجبور کرتی ہے۔زندگی دائرے کی مانند اگر ہے تو اسے حرکت بھی کرنا ہے اور اسی طرح فاصلے کے سلسلے کو باقی بھی رکھنا ہے۔”ٹھہریں کہاں”یہ فقرہ ایک مسلسل سفر کی جانب اشارہ کرتا ہے۔
قدیم کر گئی خواہش جدید ہونے کی
کسے خبر تھی یہاں تک وہ دائرہ ہوگا
یہ شعر ایک ایسی بصیرت کا حامل ہے جس میں ہماری تہذیبی زندگی کی تاریخ پوشیدہ ہے۔جدید اور قدیم کی کشمکش اور کشاکش مستقل ایک موضوع ہے لیکن غزل کے ایک شعر میں اسے ایک المیہ کی صورت میں اس طرح پیش کرنا مشکل ہے۔وہ دائرہ اشارہ ہے قدامت کی طرف جس کی گرفت بہت مضبوط ہے اور جس کا سایہ وقت کے ساتھ پھیلتا ہی جاتا ہے۔جدید ہونے یا بننے کی خواہش کسی بھی شخص کا جمہوری حق ہے،مگر صورتحال یہ ہے کہ جتنا جدید کوئی ہوتا نہیں ہے اس سے زیادہ وہ جدید ہونے کا دعوی کرتا ہے۔بہت جدید ہونا بھی بہت قدیم ہونے کی طرح ہی ہے۔جدید بننے کی خواہش میں اور قدیم ہو جانا اس کی منطق اسی وقت سمجھ میں آ سکتی ہے جب تاریخی پس منظر میں اس مسئلے کو دیکھا جائے گا۔
ہرایک شکل کو تکمیل کی ضرورت تھی
مگر شعور ہمیں دائرے سے آیا ہے
حیات اور کائنات کی ناتمامی کا احساس دنیا کے تمام بڑے ادیبوں اور شاعروں کا مقدر رہا ہے۔صغیر ملال نے احساس کے اس بوجھ کو جس طرح اٹھایا ہے اور اسے جس شکل میں دیکھا ہے وہ غزل کی شاعری میں اپنی ایک مثال ہے۔یہاں دائرے کے روشن پہلو کو دکھایا گیا ہے۔دائرے کی صورت تکمیل کی صورت بھی ہے۔لیکن تکمیل کی یہ صورت ایک مخصوص حلقہ کی پابند ہے۔ایک ہی شکل کو ہمیشہ ایک ہی طرح سے نہیں دیکھا جا سکتا۔ایک محدود دائرے کی صورت کو کائنات کی صورت میں دیکھنا ایک واقعہ ہے۔
یہ چند دائرے یہ چند گردشیں سی ملال
یہی حیات یہی کائنات ہے شاید
چند دائرے اور چند گردشیں زندگی اور کائنات کو ان سے آگے لے جانے اور دیکھنے کی خواہش کبھی غیر ضروری خواہش معلوم ہوتی ہے۔لفظ “شاید”میں ایک تہذیب پوشیدہ ہے جو خاموشی کا بدل بھی معلوم ہوتی ہے ۔
عجیب طرح کا رشتہ ہے دائروں میں میں ملال
جدا جدا سہی سب ایک ہی بھنور میں ہیں
گردش جو دائرے میں نہ ہوتی زمین کی
پھرتی یہ کائنات میں جانے کہاں کہاں
ان کے لیے بھی دائرہ ہوگا یہی ملال
جو آئیں گے یہاں اسی محور سے آئیں گے
اک دائرہ ک جس سے ہیں گردش میں دائرے
اس زاویے سے دیکھا ہے کس نے جہان کو
دائرے چند ہیں گردش میں ازل سے جو یوں
کوئی بھی چیز ہمیشہ نہیں رہنے دیتے
صغیر ملال دائرے کو فکری سطح پر اتنا پھیلا دیتے ہیں کہ انسانی زندگی اس میں سمائی ہوئی دکھائی دیتی ہے۔ایک دائرہ تخلیقی سطح پر ذہن کو کتنی وسعت بخش سکتا ہے،ظاہر ہے کہ دائرہ فکری دنیا کو محدود بھی کر سکتا ہے۔دائرے کے پاس دائرے کے سوا اور کیا ہے،اپنی شکل کے اعتبار سے دائرہ جس محور،مجبوری اور ماحول کا پتہ دیتا ہے اس کا ادراک ایک تخیلاتی عمل ہے۔صغیر ملال نے دائرے کو محور بھی کہا ہے۔صغیر ملال کو دائرے کی گردش کے ساتھ زمین کی گردش کا خیال آتا ہے۔ایک محور پر گردش کرنا،اس کی اپنی طاقت ہے اور مجبوری بھی۔
صغیر ملال کی غزلوں میں کائنات کی وسعت اور تنگی دونوں ایک دوسرے سے ملتی ہوئی نظر آتی ہے۔کائنات کے بڑے مسائل کو موضوع بنانا،نظم سے زیادہ مخصوص سمجھا جاتا ہے۔غزل کے شعر میں کائنات کے مسائل اشاروں کی زبان میں اظہار پاتے ہیں۔صغیر ملال کا یہ فنی اختصاص ہے کہ وہ غیر ضروری آرائش کےبغیر زندگی اور کائنات کے مستقل اور الجھے ہوئے مسائل کو پیش کرنے میں کامیاب ہوئے۔ایسا محسوس ہوتا ہے کہ چند سامنے کے الفاظ ان کے لیے معنی آفرینی کا وسیلہ ہیں ۔اتنی آسانی سے کہہ دینا اور کہتے کہتے خاموش ہو جانا۔غزل کے شعر میں کہتے کہتے خاموش ہوجانے کا مطلب ردیف اور قافیہ کے سفر کا مکمل ہو جانا ہے۔لیکن صغیر ملال کے یہاں آسانی میں جو خاموشی ہے وہ بہت مشکل سے ان کے معاصرین کے یہاں ملے گی۔عام طور پر ان کی غزلیں چھوٹی بحر میں ہیں۔تسلسل کی کیفیت بھی دیکھی جا سکتی ہے۔مسائل کے اظہار میں ایک بے دلی بھی پائی جاتی ہے۔کہ جیسے کوئی یہ کہنا چاہتا ہو کہ کہنے کا حاصل بھی کیا ہے۔اسی لیے کہتے کہتے خاموش ہو جانے کی ایک روش ہے ۔زمین،آسمان،ازل، ابد سورج،نیند،عدم،صحرا, یہ چند الفاظ صغیر ملال کے یہاں زندگی اور کائنات کے گہرے مسائل کا بوجھ اٹھا لیتے ہیں۔جدید معاشرے کے مسائل صرف جدید معاشرے کے مسائل معلوم نہیں ہوتے۔انسان کہاں سے آیا ہے،اسے کہاں جانا ہے،وہ کیوں آیا ہے،اس کی منزل کہاں ہے،اس کے وسائل کیا ہیں۔اگر ان سوالات پر غور کریں تو یہ کتنے پرانے معلوم ہوں گے۔لیکن صغیر ملال اپنے ملال کے ساتھ ان مسائل کو اظہار کی سطح پر بلکہ احساس کی سطح پر بھی تازہ کار بنا دیتے ہیں۔
جس کو احساس ہو افلاک کی تنہائی کا
دیر تک اس کو اکیلا نہیں رہنے دیتے
یوں تو ازل سے ٹھہرا ہوا تھا کہیں مگر
جو ایک بار آگیا لمحہ گزر گیا
عبث ہے سوچنا لا انتہا کے بارے میں
نگاہیں کیوں نہ جھکالوں جو آسماں دیکھوں
ہے ایک عمر سے خواہش کہ دور جا کے کہیں
میں خود کو اجنبی لوگوں کے درمیان دیکھوں
سورج ہے روشنی کی کرن اس جگہ ملال
وسعت میں کائنات اندھیرے کا جال ہے
بس اتنی دیر میں اعداد ہو گئے تبدیل
کہ جتنی دیر میں ہم نے انہیں شمار کیا
آخر ہوئی شکست تو اپنی زمین پر
اپنے بدن سے میرا نکلنا محال ہے
ایک لمحے کو سوچنے والا
ایک عرصے کے بعد بولا ہے
لمحہ یہی جو اس گھڑی عالم پہ ہے محیط
ہونے کی اس جہان میں تنہا مثال ہے
جہان کہنہ ازل سے تھا یوں ہی گردآلود
کہ ہم نے خاک اڑا کر یہاں غبار کیا
نہ جانے بھید کھلیں کتنے اس کے پڑھنے سے
جو ایک دن ملے کاغذ گرا پڑا کوئی
کبھی ڈراتی کبھی پرسکون رکھتی تھی
ملال دور سے آتی تھی جو صدا کوئی
سب کشش کھو گیا امکان میں آتے ہی ملال
کتنا دلکش رہا ہے جب تک کہ وہ ناممکن تھا
ممکن ہے کائنات کے کہنہ نظام میں
جو انتظام لگتا ہے وہ انتشار ہو
ایک رہنے سے یہاں وہ ماورا کیسے ہوا
سب سے پہلا آدمی خود سے جدا کیسے ہوا
ابتدا میں کیسے صحرا کی صدا سمجھی گئی
اور پھر سارا زمانہ ہم نوا کیسے ہوا
تیرے بارے میں اگر خاموش ہوں میں آج تک
پھر ترے حق میں کسی کا فیصلہ کیسے ہوا
ہو سہل کیسے یہاں تہ سے آشنا ہونا
ہے سطح خاک کی جو زیر آب دیکھتے ہیں
ملال انسان صدیوں بعد آیا
یہاں ہونا تھا جو وہ ہو چکا تھا
کس خوبصورتی سے تراشا گیا ہوں میں
چہرے پہ میرے نقش ہیں اس کی خراش کے
جتنا سفر کا وقت یہاں مختصر ہوا
ہوتے رہے طویل یہاں اتنے فاصلے
یہ الگ بات کہ ہم رات کو ہی دیکھ سکیں
ورنہ دن کو بھی ستاروں کا تماشہ ہے وہی
ایک لمحے میں زمانہ ہوا تخلیق ملال
وہی لمحہ ہے یہاں اور زمانہ ہے وہی
فضا کا لفظ ہے اس کے لیے الگ موجود
جو گھر ٹھہرتی ہے اس کو ہوا نہیں کہتے
یہ اشعار کئی بار پڑھے جانے کا تقاضا کرتے ہیں۔وقت کے ٹھرنے اور گزر جانے کا احساس کتنے مختلف حوالوں سے یہاں موجود ہے۔وقت جو ٹھہرا ہوا تھا وہ آتے ہی گزر گیا۔یہ کیسی بصیرت ہے جو وقت کو سمجھنے کا بہت ہی آسان نسخہ فراہم کرتی ہے۔وگرنہ وقت کو کس نے کتنا اور کہاں سمجھا ہے۔جس کو جتنا سمجھ میں آیا ہے وہ بھی تحریر میں آ کر مختلف ہو گیا ہے۔ازل میں وقت ٹھہرا ہوا تھا۔اگر وہ وہی ہوتا تو اسے گزرا ہوا وقت تو نہیں کہتے۔خود کو سمجھنے اور دنیا کو سمجھنے میں کتنا وقت لگ جاتا ہے۔کبھی دنیا پہلے سمجھ میں آجاتی ہے اور اپنی ذات دور جا پڑتی ہے۔سمجھنے اور سمجھانے کا یہ عمل اگر منطقی ہو جائے تو پھر تخلیقی بصیرت کی روح رخصت ہو جائے گی۔صغیر ملال کہتے ہیں
کیا عجب راز ہے ہوتا ہے وہ خاموش ملال
جس پہ ہونے کا کوئی راز ہے عیاں ہوتا ہے
صغیر ملال مانوس اور بظاہر چھوٹے الفاظ کی مدد سے معنی کی دنیا تخلیق کر لیتے ہیں۔ہونے اور نہ ہونے کے درمیان کی منزل کتنی مختصر یا طویل ہے وہ بھی صغیر ملال کا ایک اہم مسئلہ ہے۔
خود اجنبی ہیں میرے لیے بیشتر حروف
میری زبان میں یہ کسی کی کتاب ہے
یہ وہ منزل ہے جو تخلیقی زندگی میں کبھی دیر سے آتی ہے اور کبھی نہیں آتی۔حروف کا اجنبی ہو جانا ایک نئی تخلیقی کائنات کی تخلیق کا وسیلہ ہے ۔ا اپنی زبان میں کسی اور کے لیے کتاب لکھنا یہ ہر تخلیق کار کا مقدر نہیں ہے۔اس کا یہ مطلب نہیں کہ واقعتاً حروف اجنبی ہیں۔مندرجہ بالا اشعار میں جو ذہن کار فرما ہے وہ تخلیقی سطح پر کس قدر بے چین ہے۔مگر یہ بے چینی اتنی دبی ہوئی اور خاموش ہے کہ میں محسوس ہوتا ہے جیسے کسی نے آگ خاک لی ہے اور اندر ہی اندر جو دھواں اٹھ رہا ہے وہ باہر سے دکھائی نہیں دیتا۔وقت کو تسلسل کے میں دیکھنا یا اسے الگ الگ کر کے دیکھنا،زیاں کا احساس بہرحال باقی رہتا ہے۔ہونے اور نہ ہونے کے بارے میں صغیر ملال نے بہت سوچا ہے۔کبھی بہت سنجیدگی کے ساتھ سوچنا بھی مسئلے کو الجھا دیتا ہے۔اور کبھی یوں ہی بغیر کسی منصوبے کے غور کرنا مسئلے کو حل کر دیتا ہے۔مسئلہ حل کہاں ہوتا ہے بس وہ ہمیں حل ہوتا ہوا دکھائی دیتا ہے۔صغیر ملال کا وجودی احساس بہت فطری معلوم ہوتا ہے ۔وجودی احساس خاموشی کے ساتھ انسانوں کی قطار میں جا کھڑا ہوتا ہے ۔صغیر ملال کے خیال کی دنیا زمینی سطح کی پابند ہے ۔کائنات میں پھیلا ہوا غبار اور اس فضا میں گم شدہ آ واز،صغیر ملال کے یہاں زمینی سطح پر سنائی دیتی ہے ۔
جمی ہے پلکوں پہ اس طرح دربدرکی دھول
خیال انے لگا اب تو گھر بنانے کا
اس طرح کا شعر کہنے والا دوسرا کون تھا ۔یہ خیال آسمانی ہو بھی نہیں سکتا تھا ،یااس آ سمانی بنانے کی خواہش اس مکان کی تعمیر کے تصور کے ساتھ زیادتی ہوتی۔
پھر اس کے بعد راستہ ہموار ہو گیا
جب خاک سے خیال نمودار ہو گیا
سرور الہدیٰ
نئی دہلی
08/08/2
024