شہریار

یہ تحریر 73 مرتبہ دیکھی گئی

یہ ایک بات نہیں جانتے جو ہم چپ ہیں
کہاں سکوت میں شامل صدا کو ہونا ہے
شہریار
13 فروری 2012 سے13 فروری 2025 کے درمیان کا جو عرصہ ہے اس کی روشنی میں بھی مندرجہ بالا شعر کو دیکھا جا سکتا ہے۔اس عرصے کی خاموشی اور گویائی میں شہریار کی خاموشی اور گویائی بھی شامل رہی ہے ۔لیکن اس گویائی اور خاموشی کو جو زبان شہریار نے دی ہے وہ زمانے کی خاموشی اور گویائی کی زبان سے مختلف ہے۔زمانے کی صدا اور زمانے کا سکوت اپنی وقتی ضرورت اور سیاست سے پہچانا جاتا ہے۔کبھی تخلیق کار کی فوری ضرورت اس کا حصہ بن جاتی ہے۔یہ حصہ بن جانا دراصل اپنے وقت کے ساتھ ہونا ہے۔یہ ہونا بھی کبھی کتنا شرمندہ کرتا ہے۔اگر تخلیقی سطح پر سچائی اور اخلاص ہو تو شرمندگی کا کوئی لمحہ نہیں آتا۔شہریار کی شخصیت اور شاعری دونوں کی پہچان سکوت اور خاموشی سے رہی ہے۔انہوں نے اپنی گفتگو میں اپنےاسلوب کے بارے میں بتایا ہے، اسے سنتے اور پڑھتے ہوئےمحسوس ہوتا ہے کہ جیسے یہ بتانا بھی اصل میں کچھ چھپا لینا ہے۔یہ اس وقت ہوتا ہے جب کوئی حساس اور ذہین تخلیق کار یہ محسوس کرنے لگے کہ اب جو کچھ کہنا ہے وہ تو شاعری کو کہنا ہے۔شاعری سے باہر اپنا کہا ہوا کچھ کام نہیں آتا ۔شہریار کا اسلوب نظم اور غزل دونوں میں سکوت سے علاقہ رکھتا ہے۔یہ علاقہ اپنی ویرانیوں اور تنہائیوں کے ساتھ اتنی دور تک پھیلتا جاتا ہے۔یہ پھیلتا ہوا سناٹا خوف زدہ کرتا ہے اس قاری کو، جس نے بہت پرشور اور پرزور شاعری کا مطالعہ کیاہے، اور جو یہ سمجھتا ہے کہ اچھی شاعری کو پڑھنے کا مطلب،ایک قاری کی حیثیت سے جلد اور بہت جلد شاعری کی فضا سے نکل آنا ہے۔لہذا شہریار کی شاعری اور وہ شاعری جو داخلی سطح پر سناٹے اور خاموشی کے علاقوں کو مسخر کرتی جاتی ہے،اس کو پڑھنے کا مطلب خود کو ایک طرح سے گم کر دینا ہے یا گم ہو جانا ہے۔یہ گمشدگی قاری کی بھی ہے اور معنی کی بھی جو مسلسل گردش میں ہے مگر گرفت سے باہر بھی ہے۔
شہریار کا مندرجہ بالا شعر ان کی تخلیقی شخصیت کا بہترین اظہار ہے۔ایک طرف اس حقیقت کا اعتراف ہے کہ میری گویائی کو اس بات کا علم نہیں کہ کب اسے صدا کے ساتھ ہو جانا ہے۔”یہ ایک بات نہیں جانتے جو ہم چپ ہیں”اس کا یہ مطلب نہیں کہ واقعی متکلم اس حقیقت سے نا آشنا ہے۔یہ نا آشنائی، آشنائی کے اس تصور سے تحریک پاتی ہے ک خاموشی خود ہی خاموشی کو را دیتی ہے اور وہ نہیں چاہتی کہ صدا اس کا حصہ بنیے۔اگر سدا سکوت میں شامل ہو بھی جائے تو کیا تعجب کہ اس کا مقدر بھی سکوت ہی ہو۔گویا سکوت کا صدا میں شامل ہونا اس بات کی ضمانت نہیں کہ سکوت کو گویائی مل جائے گی ۔”کہاں سکوت میں شامل صدا کو ہونا ہے”سے اشارہ اس بات کی طرف بھی ہے کہ جو سکوت ہے وہ مکمل طور پر گویائی سے خالی ہے۔یا اگر کچھ گویائی ہے بھی تو ابھی اسے مزید گویا ہونا ہے اور اس کے لیے اس صدا کی ضرورت ہے جس کی طرف متکلم اشارہ کر رہا ہے۔”یہ ایک بات نہیں جانتے”سے یہ بھی واضح ہے کہ جو دوسری باتیں ہیں ان کا علم ہمیں ضرور ہے مگر یہ وہ بات ہے جس نے سکوت کے زمانے کو طویل تر کر دیا ہے. لفظ “کہاں”یہ بتاتا ہے کہ سکوت کا سلسلہ اور سفر اتنا طویل ہے, اور اس کی طوالت صدا کے لیے مشکل پیدا کرتی ہے. یعنی صدا کو ہر جگہ سکوت میں شامل نہیں ہونا ہے. لفظ کہاں مقام کی طرف بھی اشارہ کرتا ہے اور اس میں کوئی وقت بھی موجود ہے. اس لاعلمی کی عمر وقت کے ساتھ بڑھتی جاتی ہے۔متکلم کا مسئلہ بظاہر بولنا نہیں ہے۔خاموشی جب طاقت بن جائے تو ایسے میں اس سے بڑی کوئی گویائی ہوتی بھی نہیں۔لیکن فطری طور پر اظہار کی خواہش گویائی کی طرف لے آتی ہے۔
سکوت میں شامل ہونے والی صدا کب سے اپنے داخلے کا انتظار کر رہی ہے۔اور دروازہ ہے کہ کھلتا نہیں۔چپ اور خاموشی کا زمانہ وقت کے ساتھ کتنا پھیلتا جاتا ہے۔اس پھیلتے ہوئے زمانے اور وقت کے ساتھ پھیلتی ہوئی خاموشی،یہ خیال کہاں کہاں ذہن کو منتقل کر دیتا ہے۔متکلم کے ذہن میں نہ جانے کس کا خیال تھا گویائی اور خاموشی کا کون سا تصور تھا،جو بھی تھا جیسا بھی تھا وہ ایک بڑی سچائی کے ساتھ تھا۔سکوت کا ٹوٹنا ایک واقعہ ہے۔اور ہر آواز کو بالآخر خاموش ہو جانا ہے۔مگر ایک ایسی بھی آواز ہے جو اپنے سکوت کے ساتھ اپنی موجودگی کا احساس دلاتی ہے۔سکوت اور صدا کی عمر ایک دوسرے سے کم یا زیادہ ہے،اس سوال کا جواب اور کیا ہو سکتا ہے کہ صدا نے سکوت کے ساتھ اپنے سفر کا آغاز کیا تھا۔شہریار کا یہ شعر خاموشی کو راہ دیتا ہے۔اتنا کچھ لکھنے اور کہنے کے بعد محسوس ہوتا ہے کہ جیسے سکوت بدستور قائم ہے۔

سرور الہدی
13 فروری 2025
دہلی