جتنا گمان تھا ہمیں اتنا زیاں ہوا نہیں
کیوں نہ حیات شوق سے منہا یہ سال ہم کریں
شہریار صاحب نے پوری غزل فوبن پر سنائی تھی۔ بعد کو کتاب نما میں شائع ہوئی۔ مندرجہ بالا شعر سنتے ہی یاد ہو گیا تھا۔ کل اپنے کئی عزیزوں کو یہ شعر سنایاتوایک خاص قسم کی کیفیت میں نے سب کے یہاں محسوس کی۔ میں سوچتا تھا کہ زیاں کا ذکر عزیزوں کو کچھ افسردہ کرے گا، لیکن ایسا ہوا نہیں۔ یہ ثابت کرنا مشکل ہے کہ متکلم کتنا زیاں چاہتا تھا۔ اور زندگی کے کس پہلو کو زیاں کے ساتھ زیادہ دیکھنا چاہتا تھا۔ جو گمان تھا وہ متکلم کی طاقت تھی۔ لیکن یہ طاقت کمزور ہونے لگتی ہے جب متکلم محاسبہ کرتا ہے۔ گمان کس طرح یقین کی سطح کو حاصل کر لیتا ہے وہ اس شعر سے ظاہر ہے۔ گمان کو یہ طاقت ایک دن میں تو حاصل نہیں ہوتی۔ زندگی گمان اور یقین کے درمیان اپنا سفر جاری رکھتی ہے۔ یقین کبھی گمان کی طرف بھی آجاتا ہے یا آنا چاہتا ہے۔ گمان یقین کی طرف سفر کرتا دکھائی دیتا ہے۔ دونوں کو ایک دوسرے سے الگ کرنا آسان نہیں۔ علی سردار جعفری کا ایک شعر یاد آتا ہے۔
چھوڑ کر وہم و گماں حسن یقیں تک پہنچو
پر یقیں سے بھی کبھی وہم و گماں تک آؤ
شہریارنے نہ تو کوئی تلقین کی ہے اور نہ ہی ترغیب دی ہے۔ شعر خود کلامی کے ساتھ کسی ایک سال کے زیاں کو پوری زندگی کے زیاں کا کس طرح علامیہ بن جاتا ہے مندرجہ بالا شعر اس کا ایک نمونہ ہے۔ شعر کا سارا حسن لفظ گمان اور زیاں میں سمٹ آیا ہے لیکن ان دو الفاظ کے ساتھ لفظوں کی جیسی نشست ہے وہ لفظیاتی نظام کا اعلی نمونہ ہے۔ یہ وہ لفظیاتی نظام ہے جس میں شعر کا خارجی آہنگ داخلی آہنگ کو نہ بے دخل کرتا ہے اور نہ ہی اس کے ساتھ ناروا سلوک کرتا ہے۔ شہر یار نے داخلی آہنگ کو کس ہنر مندی کے ساتھ چھپانے کی کوشش کی ہے۔ داخلی آہنگ کی چاہے جو بھی تعبیر ہو اس کا رشتہ داخل سے ہے۔ اس کا رخ اس تنہائی سے بھی ہے جسے کبھی زبان بھی ملتی ہے تو جیسے زبان کی فیبرک ادھڑرہی ہو۔ شہریار کے یہاں خاموشی اتنی خاموشی کے ساتھ راہ پاتی ہے کہ لفظوں کو بھی اس کی خبر دیر سے ہوتی ہے۔ خاموشی یوں بھی شور کہاں کرتی ہے لیکن شہریار کے بعض معاصرین کے یہاں خاموشی نے گویائی کی صورت اختیار کر لی۔ ایسا اس وقت ہوا جب تنہائی کہیں سے لائی گئی اور وہ وجود کا حصہ نہیں بن سکی۔ شہریار نے مندرجہ بالا شعر میں بغیر کسی ترکیب اور اضافت کے زندگی کی ایک بڑی وجودی سچائی کو پیش کیا ہے۔ میں نے یہاں وجودی سچائی کی ترکیب اس لیے استعمال کی ہے تاکہ یہ دیکھا جا سکے کہ وجودی سچائی اجتماعی سچائی کا بدل بھی ہو سکتی ہے اور یہ کہ ہمارے پاس کوئی ایسا پیمانہ نہیں ہے جو یہ بتا سکے کہ انفرادی اور اجتماعی احساس نے کہاں اپنا سفر شروع کیا اور کہاں ختم کیا۔ جسے ہم TRANS INDIVIDUALکہتے ہیں وہ بھی ادب کی بڑی حقیقت ہے۔شہریار کے شعر میں حیات شوق کی ترکیب کتنی پرانی معلوم ہوتی ہے۔ پہلی نظر میں تو شوق عشق کی طرف ذہن کو منتقل کر دیتا ہے۔ مجھے یاد نہیں آتا کہ کسی جدید شاعر نے اس طرح کا شعر کہا ہو۔ منہا کم کرنا اورگھٹاناہے،خارج کر دینا نہیں ہے۔ حیات شوق کا ایک سال پوری زندگی تو نہیں ہو سکتا۔ایک سال اس گمان کے ساتھ گزاردینا صرف ذہنی عمل نہیں ہے۔ اگر یہ خالصتاً ذہنی عمل ہو تو بھی قاری اپنے طور پر اسے عملی زندگی کا حصہ سمجھنے لگتا ہے۔ حیات شوق سے کسیی سال کو کم کر دینا یا سے نکال دینا صرف اس بنا پر کہ زیاں گمان کے مطابق نہیں ہوا کس قدر حوصلہ افزا بات ہے۔عاشق کا یہ کردار دور جدید سے ہم آہنگ ہے یا دور قدیم سے یہ بات اتنی اہم نہیں رہ جاتی۔ یہ شعر جس ذہنی کیفت کو سامنے لاتا ہے اس کا تجزیہ تاریخی اور شخصی حوالوں کے ساتھ ممکن تو ہے مگر یہ نہ سمجھ لیا جائے کہ شعر کی فضا تنگ کی جا رہی ہے۔ شہریار نے اس شعر کو پڑھتے ہوئے کسی خاص رغبت کا اظہار ممکن ہے کیا ہو اور وہ مجھ تک نہ پہنچ سکی ہو۔لیکن یہ ضرور ہے کہ اس شعر کو میں نے دو یا تین بار دوہرایا تھا۔
16جون 2023