مَیں اپنا سارا سحر
ہند کے ایک پرانے مندر کے تہ خانے میں
پڑے صندوقچے میں قید کر آئی ہوں
جاتے سمے ایک سادھو بزرگ نے
میری ماں کا روپ دھارا اور
جادو بھرے صندوقچے سے ایک چھڑی نکال کر
مجھے تھما دی
چھڑی میرے ہاتھ میں ہے
جِسے ٹیک ٹیک کر ابھی میں
یورپ کی برقی سِڑھیاں چڑھنا سیکھ رہی ہوں
مگر ایک وقت آئے گا جب چھڑی زمین پہ ماری جائے گی
تو پانی ابل پڑے گا اور مِٹی کے دو پاٹ بنیں گے
دو پاٹوں کے بیچ میں کون ثابت رہتا ہے کون نہیں
اس بات کا فیصلہ وہ کھونٹی کرے گی
جس سے مندر کا گھنٹا بندھا ہے
اور جب چھڑی ہوا میں گمائی جائے گی
تو جادو بھری شام اترے گی
جس میں چاند دو ٹکڑے ہوتا ہے یا نہیں
اس بات کا فیصلہ وہ انگلی کرے گی
جو گھنٹا بجانے کو اوپر اٹھی ہوئی ہے
کومل راجہ
05-اگست-2017