شمیم حنفی کی باتیں(3)

یہ تحریر 273 مرتبہ دیکھی گئی

یہ اُن دنوں کی بات ہے جن دنوں میں نے کچھ عرصے کے لیے آن لائن ویب سائٹ “ہم سب” میں ادبی کالم لکھنا  شروع کیاتھا۔ ان کالموں میں سے ایک کالم ظہیر کاشمیری کے بارے میں تھا۔ یہ کالم شمیم حنفی کی نظر سے گزرا۔ انھوں نے اس کالم کو پڑھ کر پسندیدگی کا اظہار کیا۔ یہ پسندیدگی میرے لیے کسی اعزاز سے کم نہیں تھی۔ بتانے لگے کہ میں جب 1986ء میں پاکستان گیا تو اس سفر میں جن لوگوں سے ملاقات ہوئی ان میں ظہیر کاشمیری بھی شامل تھے۔ خوبصورت آدمی تھے۔ اپنے خیالات میں راسخ تھے۔ ان کا جھکاؤ ترقی پسند ادب کی طرف تھا۔ جن اور لوگوں سے اس سفر میں مَیں ملا، ان میں غالب احمد بھی شامل تھے جنھوں نے مجھے ناصر کاظمی کا لکھا ہوا مختصر سا مضمون بھی دیا تھا۔ اور ادیبوں میں الطاف فاطمہ، مظفر علی سید، سہیل احمد خاں، انجم رومانی تو یہ سب  ادیب  مجھے اس سفر میں ملے۔

کلکتہ سے متعلق بات ہوئی تو بتانے لگے کہ “بنگالی میں غالب کا جو ترجمہ چھپا ہے اس کی ایک لاکھ کاپیاں بکی ہیں۔ یہ ترجمہ شری چرٹ پادھیائے نے کیا ہے۔ بنگالی لوگ بہت پڑھتے ہیں۔” مسعود اشعر نے کسی جگہ پر عین رشید کا ذکر کیا تھا تو شمیم صاحب بتانے لگے کہ عین رشید میرے دوست تھے۔ ان کی کتاب “آبنوسی خیال” چھپ چکی ہے۔ وہ کثرتِ شراب نوشی سے انتقال کر گئے۔ الگ وضع کے آدمی تھے۔ ایک دفعہ دلی آئے تو رات کو آتے ہی مجھے کہنے لگے کہ “چلیں کھانا کھانے۔”  میں نے کہا کہ “میں کھانا کھا چکا ہوں۔” تو کہنے لگے “نہیں میں نے سوچا تھا کہ ڈنر آپ کے ساتھ کرنا ہے۔” پھر میں، بلراج مین را اور عین رشید کھانا کھانے ذاکر کے ہوٹل چل دیے۔”  ہماری گفتگو میں کسی نہ کسی حوالے سے ادیبِ شہیر حضرت محمد سلیم الرحمٰن  کا ذکر آ ہی جاتا تھا۔ اب کہ شمیم صاحب نے سلیم صاحب کے انگریزی کالموں کا ذکر کیا اور خواہش ظاہر کی کہ ایک تو ان کالموں کو اکٹھا چھپنا چاہیے (جو ان دنوں ریڈنگز کے اشاعتی ادارے القا پبلی کیشنز کے تحت زیرِ اشاعت ہیں) اور دوسرا یہ کہ کسی اچھے مترجم کو ان کالموں کا اردو ترجمہ بھی کرنا چاہیے۔ انھوں نے سلیم صاحب کی کچھ انگریزی نظمیں بھی پڑھ رکھی تھیں۔ بتا رہے تھے کہ “مجھے محمد سلیم الرحمٰن کی نظمیں بہت پسند ہیں۔ میں جتنی دلچسپی سے ان کی نظموں کا مجموعہ “نظمیں” (قوسین) پڑھتا ہوں اسی دلچسپی سے انگریزی نظمیں بھی زیرِ مطالعہ رہتی ہیں۔  انوار ناصر سے کہنا کہ محمد سلیم الرحمٰن کی انگریزی نظمیں بھی شایع کریں۔” میں نے یہ فرمائش ناصر صاحب کے گوش گزار کی تھی جس پر انھوں نے بتایا کہ جب سلیم صاحب مجھے انگریزی نظمیں دیں گے میں چھاپ دوں گا۔ محمد سلیم الرحمٰن نے الف لیلیٰ سے کچھ کہانیاں لے کر بچوں کے لیے اردو روپ میں لکھی تھیں جنھیں القا نے شایع کیا تھا اور یہ کتابیں چھوٹے بچوں میں اردو زبان میں دلچسپی پیدا کرنے کے لیے بہت مفید ہیں۔ ان میں “سند آباد جہازی” ، “علی بابا چالیس چور”، “الہٰ دین کا چراغ”، “معروف موچی”، “قصہ سوتے جاگتے کا”، ‘جودر اور اس کے بھائی”اور سلیم صاحب کی بچوں کے لیے لکھی ہوئی تحریر “بی کھوکھو کی ناک” شامل ہیں ۔ شمیم صاحب چاہتے تھے کہ انھیں یہ کتابیں دلی میں فراہم کی جائیں۔ ان کی یہ فرمائش بھی انوار ناصر صاحب تک پہنچائی گئی۔ میں نے شمیم صاحب کو ان کے ادبی خاکوں کے مجموعے “ہم سفروں کے درمیاں” کی اشاعت کی بھی خبر دی۔ شمیم صاحب نے بتایا کل میرا ہسپتال میں معمول کا چیک اپ ہے۔ میری بیٹی میرے ساتھ جائے گی۔ گفتگو میں خورشید رضوی صاحب کا ذکر ہوا تو فرمانے لگے کہ ان سے میری پہلی ملاقات جدہ میں ہوئی تھی۔ اس کے بعد پاکستان میں بھی میں اُن سے مل چکا ہوں۔ تم تحسین فراقی اور  محمد سلیم الرحمٰن کو جا کر میرا سلام دینا۔ تمھیں مَیں نے یہ فون اس لیے کیا ہے کہ مَیں تم سے ان دوستوں سے متعلق باتیں کر سکوں۔

ملک ارجن منصور کے بارے میں بتانے لگے کہ “ان کی ذاتی زندگی کچھ بہت زیادہ اچھی نہیں تھی۔ دکھی سے تھے مگر جب گانا گاتے تو گاتے ہی رہتے۔ کوئی ترنگ تھی جو اُس آن ان کے وجود کو اپنے حصار میں لے لیتی۔ اندرا گاندھی کی پہلی برسی پر اُن کے گھر میں جو محفل ہوئی تھی میں نے اُن کو اس میں سنا تھا۔ وہاں پر انھوں نے اپنا مشہور گیت “مت جا جوگی مت جا” گایا تھا۔” میں نے بیماری کا ذکر کیا تو کہا کہ “یہ تو اب جیون کا روگ ہے ، یہ تو چلتا رہے گا۔ ”

سلیم سہیل
http://auragesabz.gamecraftpro.com/%d8%b3%d9%84%db%8c%d9%85-%d8%b3%db%81%db%8c%d9%84/