شمیم حنفی کی باتیں

یہ تحریر 256 مرتبہ دیکھی گئی

اپریل کی  چار تاریخ ہے اور سال 2019ء۔ دہلی شہر اور ٹیلی فون پر شمیم حنفی کی آواز۔ بعض آوازیں کتنی بابرکت ہوتی ہیں جن کے سننے سے دل خوشی سے بھر جاتا ہے۔ شمیم صاحب کی آواز ایسی ہی آواز تھی جو جتنی دور سے آتی اتنی پاس لگتی تھی۔ اِدھر، اُدھر کا فرق کم کرنے والی آگ جو دونوں طرف برابر لگی ہو۔ وہ علیل تھے اور آواز میں نقاہت اضمحلال کا پتا دے رہی ہے۔ انھیں کینسر کا مرض لاحق تھا۔ سوچا خیریت دریافت کی جائے۔ پوچھا: “کیسے ہیں آپ، درد تو نہیں ہوتا۔” فرمایا: “سلیم، میں بتا نہیں سکتا۔ کس کس کیفیت، کس کس ابتلا سے گزرتا پڑتا ہے۔ پہلے ہفتے میں ایک بار ہسپتال جانا پڑتا تھا اب مہینے میں ایک بار ہسپتال جانا پڑتا ہے۔ ہسپتال کی فضا سوگوار کر دیتی ہے۔ عام طور پر میری بیٹی یا صبا ساتھ ہوتی ہے۔ انھیں بھی اپنے معمولات کو تج کر میرے ساتھ رہنا پڑتا ہے۔” میں نے کہا کہ محترم محمد سلیم الرحمٰن صاحب آپ کی صحت سے متعلق مشوش تھے اور آپ کا حال پوچھ رہے تھے۔ فرمایا: “میری کل ان سے بات ہوئی تھی۔ اس گفتگو کا اہتمام محبی محمود الحسن نے کیا تھا۔ محمود بتا رہے تھے کہ اکرام اللہ صاحب بھی مجھ سے بات کرنا چاہتے ہیں۔” باتوں باتوں میں تذکرہ ہوا کہ کل میں نے محمد سلیم الرحمٰن کو ان کی فرمائش پر کانن دیوی کا گیت “نہ جانے کیا ہے دل کا راز” سنوایا ۔ اس پر انھوں نے کچھ موسیقی کے بارے میں گفتگو کی اور فرمایا کہ تم انھیں کمار گندھرو، بھیم سین جوسی، ملک آرزو منصور اور کشوری امونکر کے گیت سنوانا۔ خاص طور پر کمار گندھرو نے جو کبیر کا کلام گایا ہے “جگ درشن کا میلا” اور ملک آرزو منصور کا “مت جا جوگی، مت جا” سنوانا۔ میں نے استاد ذاکر کے طبلے کی تعریف کی جس پر ان کا جواب تھا کہ استاد ذاکر کے والد استاد اللہ رکھا بہت اچھا طبلہ بجاتے تھے۔ مجھے ان کا طبلہ بہت پسند تھا۔ شمیم صاحب نے برجو مہاراج، کے کھلر کی بھی تعریف کی۔ وہ عابدہ پروین سے بھی متاثر تھے بتایا کہ ان کو عابدہ کی گائی ہوئی شاد عظیم آبادی کی غزل “ڈھونڈو اگر ملکوں ملکوں” بہت پسند ہے۔

شمیم صاحب اردو ادیبوں کے رویے پر بہت شاکی تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ آج کل کے ادیب دو حرف لکھ لیں تو غرور اور تکبر سے بھر جاتے ہیں۔ ان کی نسبت تم گانے والوں کو دیکھو۔ مجھے گانے والوں اور رقاصوں کا رویہ زیادہ پسند ہے۔ ذرا غرور اور تکبر نہیں۔ ریاضت کو اپنی زندگی کا شعار بناتے ہیں اور اپنے کام میں مگن، اپنی دُھن میں مست زندگی کرتے جاتے ہیں۔ انھوں نے تجویز کیا کہ عابدہ پروین نے جو گلزار کے ساتھ مل کر کبیر گایا ہے اس کو ضرور سننا۔ عالمی ادب میں اپنے پسندیدہ ادیبوں کا تذکرہ کرتے ہوئے انھوں نے میلان کندیرا، گیبرئیل گارشا مارکیز، نجیب محفوظ، اورحان پاموک اور بورخیس کا ذکر خاص طور پر کیا۔ شمیم صاحب نے اس گفتگو میں ہمارے ہاں کے نئے لکھنے والوں کا بھی تذکرہ کیا۔ انھی دنوں محمد سلیم الرحمٰن کا ایک کالم تین شاعروں کے بارے میں اکٹھا چھپا تھا۔ اکبر معصوم،کاشف حسین غائر اور احمد عطا۔ شمیم صاحب کو وہ کالم بہت اچھا لگا تھا۔ بتا رہے تھے کہ دیکھو سلیم صاحب نے نئے لوگوں کو کتنی محبت سے یاد کیا ہے۔ ہمیں نئے لکھنے والوں کو نظرانداز نہیں کرنا چاہیے اور ان کے کام کی تعریف کرنی چاہیے۔ موسیقی کے حوالے سے عابدہ پروین کے بارے میں، میں نے جسارت کی کہ شمیم صاحب عابدہ پروین کو سنتے ہوئے کبھی کبھی احساس ہوتا ہے کہ ان کے ہاں یکسانیت سی آ گئی ہے۔ ہر گیت ایک طرح کا لگتا ہے۔ اس پر انھوں نے بتایا کہ یہ ایک اسلوب ہوتا ہے جیسے بعض لکھنے والے ہیں، مثلاً انتظار حسین، جن کے اسلوب میں ماضی اپنی پوری تابانی سے تاباں نظر آتا ہے۔

اس گفتگو سے کچھ عرصہ پہلے شمیم صاحب لاہور تشریف لائے تھے۔ الحمرا میں کانفرنس تھی جس میں ہال نمبر 3 میں، موسیقی کے سیشن میں ریشماں موجود تھیں۔ یہ ریشماں کی علالت کا زمانہ تھا۔ شمیم صاحب نے اپنے صدارتی خطبے میں کہا کہ پاکستانیو! آج آپ نے مجھے اس سیشن کی صدارت دے کر مجھ پر بڑا دان کیا ہے۔ وہ یہ الفاظ گلوگیر آواز میں ادا کر رہے تھے۔ آنکھیں اشکبار تھیں۔ فرمایا میں آج بہت خوش ہوں۔ اس تقریب میں حاضرین میں سے ریشماں جی کے لیے کسی نے محدود سی رقم نذر کی تھی۔ منتظمین میں سے سربراہ وردہ منتظم نے ان پیسوں کو اپنے ہاتھ سے لہرا کر بیل کی شکل میں سب کو دکھا کر ریشماں کو پیش کیے۔ شمیم صاحب کا دل جیسے ٹوٹ گیا تھا۔ فرما رہے تھے کہ دیکھو کتنی بڑی بھی رقم ہوتی کسی آرٹسٹ کو اس طرح پیش نہیں کرنی چاہیے تھے۔ یہ اُن کا آرٹ سے محبت کا ایک نمونہ ہے۔ بتایا  کہ جب ریشماں انڈیا آئی تھیں تو میں نے نظام الدین اولیا ؒ کی درگاہ میں انھیں دیکھا تھا۔ میں وہاں جاتا رہتا ہوں۔ غالب اکیڈمی بھی پاس ہے وہاں میرے دوست ہیں میں اُن سے ملتا رہتا ہوں۔ جب میری عابدہ پروین سے ملاقات ہوئی تو میں نے اُنھیں کہا کہ مجھے دعا دیں۔ اس پر عابدہ نے دیر تک میرا سر اپنے ہاتھوں میں لے کر کچھ پڑھا اور میرے لیے دعا کی۔                 لکھاریوں کا تذکرہ چلا تو انھیں جنوبی ہند کے لکھاری بہت بھلے لگے۔ درویش منش۔ بتا رہے تھے کہ اچھا لکھتے ہیں لیکن آپے سے کبھی باہر نہیں ہوتے۔ جب اپنے دوست لکھاریوں کا ذکر ہوا تو انھوں نے پاکستان میں محمد سلیم الرحمٰن، زاہد ڈار اور اکرام اللہ کا تذکرہ کیا۔ بتایا کہ یہ تینوں خاموش رہتے ہیں اور مجھے خاموش رہنے والے لوگ بڑے اچھے لگتے ہیں۔ میں نے پوچھا کہ شب و روز کی گزران کیسے ہوتی ہے؟ ایک ٹیبلٹ میرے پاس ہوتا ہے، میں اس پر اپنی مرضی کی چیزیں سنتا رہتا ہوں۔ تلاوت، موسیقی، کوئی لیکچر کچھ بھی جس کو سن کر میرا دل خوش ہو۔ دوائیاں مجھے مضمحل کر دیتی ہیں اور ان کے منفی اثرات دیر تک میرے وجود کو متاثر کرتے رہتے ہیں۔ آج کل میں زیادہ چیزیں سنتا ہوں۔لکھنے پڑھنے کے لیے جس توانائی کی ضرورت ہوتی ہے آج کل۔مجھ میں کم ہے۔

سلیم سہیل
http://auragesabz.gamecraftpro.com/%d8%b3%d9%84%db%8c%d9%85-%d8%b3%db%81%db%8c%d9%84/