ہیلو سلیم! شمیم صاحب کی طرف سے اس نوعیت کا طرزِ تخاطب جب کان میں پڑتا تو دل خوشی سے بھر جاتا۔ اپنا آپ قابو میں کب رہتا تھا۔ وجود سارا دن خوشی سے بھرا رہتا تھا۔ ایسے جیسے اُسے وہ کچھ مل گیا ہو جس کی اس نے حسرت کی ہو۔ شمیم صاحب کی کینسر کی دوائیاں چل رہی تھیں۔ جن دنوں کیموتھراپی ہوتی ان دنوں میں حنفی صاحب کی آواز میں اضمحلال ہوتا۔ جیسے کوئی چیز ڈھیہہ سی رہی ہو۔ طبیعت میں سستی در آتی۔ بتاتے کہ “میں نے اپنے ڈاکٹر سے کہا کہ پچھلی کیمو سے میں پانچ سال گزار گیا۔ اب اگر کیمو بھی نہ کراؤں اور دوائی بھی نہ کھاؤں تو اور کتنے سال جی سکوں گا؟” ڈاکٹر کہنے لگے: “ارے نہیں ایسا نہیں کہتے۔” یہ سن کر میری بیٹی بھی مجھے کہنے لگی کہ “ابو ایسا مت بولیں۔” حنفی صاحب ان دنوں یہ کہتے تھے کہ اب اور کتنا جینا ہے، جیوں تو کیا ہے، مروں تو کیا ہے جیسے کسی کے ہاں جینے مرنے کا فرق ہی ختم ہو گیاہو۔ شمیم صاحب کے شوق کم ہو رہے تھے۔ ان میں سے ایک شوق کتاب چھپنے کا بھی تھا۔ فرمایا کہ “سلیم! مجھے اس سے غرض نہیں کہ میری کتابیں چھپیں یا نہ چھپیں، مجھے کوئی فرق نہیں پڑتا۔” ان کے ڈاکٹر کا تعلق شکارپور سے تھا۔ شمیم صاحب نے بتایا کہ “میرا کینسر کا ڈاکٹر میرا دوست بن گیا ہے۔ وہ ہندوستان کا مشہور ڈاکٹر ہے۔ میں جب عالمی اردو کانفرنس کے لیے کراچی جا رہا تھا تو میں نے اپنے ڈاکٹر سے کہا کہ “ویزا اپلائی کر دیں میں کسی کو کہہ دوں گا۔ آپ اپنا شکارپور دیکھ لینا۔” وہ تو خیر نہ آ سکے۔ میں نے آرٹس کونسل کے سیکرٹری کو کہا کہ “میرے ڈاکٹر کا تعلق سندھ سے ہے۔ آپ ایسا کریں مجھے ان کے لیے اجرک منگوا دیں۔ میں سندھ کی نشانی انھیں پیش کروں گا۔” تو کیا ہوا کہ آرٹس کونسل والوں نے مجھے اجرک اور ٹوپی منگوا دی۔ میں نے یہ تحفے اپنے ڈاکٹر کو دیے اور وہ بہت خوش ہوئے۔ تحفے وصول کرکے بہت جذباتی تھے۔ میرا معمول ہے کہ میں سوتے اور جاگتے وقت قرآن کی تلاوت سنتا ہوں۔ رات سوتے ہوئے سورۃ یٰسین اور جاگتے ہوئے سورۃ رحمٰن۔ میرے پاس ان دونوں سورتوں کے کئی ورژن ہیں۔ جس قاری کی آواز، جس وقت اچھی لگے، اس وقت سن لیتا ہوں۔ میں مذہبی آدمی نہیں ہوں۔ میرے لیے دیگر مذہبی صحیفے بھی قابل قدر ہیں۔ تورات، زبور، انجیل بھی خدا کی کتابیں ہیں ۔

شمیم صاحب کی کتاب القا سے چھپ رہی تھی۔ کتاب کا نام تھا “ہم سفروں کے درمیاں”۔ انوار ناصر صاحب نے فون کیا اور مجھے کہا کہ “بیک فلیپ کس کا لگائیں؟” میں نے کہا “سلیم سہیل کا لگا دیں۔” ان دنوں میں نے شمیم صاحب کے بارے میں چھوٹا سا تبصرہ کیا تھا جو انھیں پسند آیا تھا۔ انوار صاحب نے شمیم صاحب کو کہا کہ سلیم ابھی بچہ ہے اس پر یہ بات ختم ہو گئی۔ شمیم صاحب نے بتایا کہ مجھے پچپن ساٹھ برس ہو گئے لکھتے ہوئے۔ میں نے آج تک کسی کو نہیں کہا کہ میرے بارے میں کچھ لکھو۔ میرے ڈاکٹریٹ کے مقالے پر سید عابد حسین اور آل احمد سرور کی آرا تھیں۔ وہ آرا میں نے مغنی تبسم کے پرچے میں چھپوا دیں۔ مجھ پر آج تک جتنے لوگوں نے بھی لکھا انھوں نے خود اپنی پسند ناپسند کی بنیاد پر لکھا۔ خالد جاوید، سرور الہدیٰ (اس کی تو پوری کتاب بن گئی)، سلیم سہیل، محمد سلیم الرحمٰن، انتظار حسین۔ انتظار حسین میرے دوست ہیں لیکن ان سے بھی سنگِ میل والوں نے کہہ کر میری کتاب پر بیک فلیپ لکھوایا۔ موسیقی کے بارے میں بات کرتے ہوئے انھوں نے بتایا کہ ملک ارجن منصور کا گیت “مت جا جوگی مت جا” یہ محمد سلیم الرحمٰن کو ضرور سنوانا۔ ملک ارجن روحانی شخصیت تھے۔ کبھی ملاقات ہوئی تو تمھیں ان کے بارے میں تفصیل سے بتاؤں گا۔