شمیم حنفی کی باتیں۔4

یہ تحریر 213 مرتبہ دیکھی گئی

11 جون 2019ء کو شمیم حنفی صاحب سے گفتگو ہوئی۔ بات چیت کا دورانیہ مختصر تھا۔ اس میں شمیم صاحب نے ایک پیغام انوار ناصر صاحب کے لیے دیا۔ فرمایا کہ “ناصر صاحب سے کہنا کہ وہ جب بھی مجھے ڈاک سے کوئی چیز بھیجیں تو لفافے پر میرے گھر کا پتا لکھیں۔ مجھے جس ڈاک کمپنی کا ڈاک موصول کرنے کے لیے ٹیلی فون آیا ہے اس کا دفتر میرے گھر سے تیس کلو میٹردور ہے۔ مجھے بہت دقت پیش آتی ہے۔ گھر کے پتے پر آنے والی ڈاک مجھے آسانی سے موصول ہو جاتی ہے اور  اس کے وصول کرنے کے لیے دور کا سفر طے نہیں کرنا پڑتا۔ پاکستان سے جامعات کی ڈاک مجھے میرے گھر کے پتے پر ہی آتی ہے اور ڈاکیے کو میرے گھر کا پتا ہے۔”

اس کے چار دن بعد شمیم صاحب سے دوبارہ گفتگو ہوئی۔ وہ جدہ میں تھے اور جدہ میں ان کا قیام 5 جولائی تک تھا۔ بتانے لگے کہ “پچھلے سال میں جب سعودی عرب آیا تھا تو میں طائف گیا تھا۔ طائف کے بارے میں، مَیں نے بہت کچھ پڑھ رکھا تھا۔ خاص طور پر رسول اکرمﷺ پر اذیتوں کے حوالے سے اس شہر کا نام لیا جاتا ہے۔ یہاں جانے کے لیے جدہ سے جس راستے کا انتخاب کیا وہ بہت خوبصورت تھا۔ میری بیٹی اور اُس کی دوست ساتھ تھی۔ ہم نے وہاں باربی کیو بھی کیا۔ قرآن نے جو طائف کا نقشہ کھینچا ہے اس کے عین مطابق وہاں نہریں تھیں، درخت تھے تو مجھے بہت شوق تھا اس منظرنامے کو دیکھنے کا۔ میں جب بھی قرآن مجید پڑھتا ہوں تو آیات میں جو منظر بیان ہوتے ہیں ان کو ملا کے دیکھتا ہوں۔ کوشش ہوتی ہے کہ اس مفہوم کے متوازی جو ماحول بیان کیا گیا ہے اس سے واقفیت حاصل کروں۔ پیغام سے حسی قربت حاصل کروں۔  قرآن میں مکی سورتوں کا جو میں نے مطالعہ کیا ہے تو مجھے وہ سورتیں عام زندگی سے متعلق لگی ہیں۔ لیکن قرآن کا شکوہ بتاتا ہے کہ وہ آسمانی کتاب ہے۔ میں قرآن کو اپنی بساط کےمطابق سمجھنے کی کوشش کرتا ہوں۔ خورشید رضوی بھی یہاں جدہ میں ہیں۔ ان کا بیٹا یہاں رہتا ہے۔ میں ان سے بھی ملوں گا۔ لیکن ابھی تھکا ہوا ہوں۔ حرم شریف میری بیٹی کے گھر سے گھنٹے بھر کی مسافت پر ہے۔ وہاں حاضری دو ں گا۔ اس کے بعد باقی ملاقاتیں کروں گا۔ میں یہاں مشاعروں وغیرہ میں نہیں جاتا۔ میری مشاعروں میں دلچسپی زیادہ نہیں۔ جب دلی میں ہوتا ہوں تب بھی ایسا نہیں کرتا۔ محمد سلیم الرحمٰن سے ملاقات ہو تو ان کو میرا سلام کہنا۔” میں نے اُن کی تحریروں سے متعلق بات کی تو کہنے لگے کہ “مجھے اپنی تحریروں کے بارے میں بات کرنا اچھا نہیں لگتا۔ علم زیادہ نہیں ہے۔ بس جو سمجھ میں آتا ہے لکھ دیتا ہوں۔ “ہم سفروں کے درمیاں” آپ کو اچھی لگی تو اچھی بات ہے۔” خدا سے متعلق بات ہوئی تو کہا کہ “کبھی کبھی سوچتا ہوں کہ ظالم تو دندناتے پھرتے ہیں اور مظلوم جنھوں نے زندگی میں کبھی کچھ غلط نہیں کیا ہوتا وہ دکھ میں رہتے ہیں۔ خدا کا قہر ظالموں پر جلد ٹوٹنا چاہیے۔”

سلیم سہیل
http://auragesabz.gamecraftpro.com/%d8%b3%d9%84%db%8c%d9%85-%d8%b3%db%81%db%8c%d9%84/