شمس الرحمٰن فاروقی کی باتیں

یہ تحریر 501 مرتبہ دیکھی گئی

مئی کی 17 تاریخ ہے اور سال 2019ء  ٹیلی فون پر حضرت شمس الرحمٰن فاروقی محوِ گفتگو ہیں۔ میں جس جگہ بیٹھ کر فون کر رہا تھا اس جگہ وائی فائی کے سگنل کم آ رہے تھے (یہ اورینٹل کالج کی کینٹین کے سامنے نکڑ پہ ایک درخت ہے جس کو میں پچیس سال سے اپنا سہارا بنائے ہوئے ہوں)۔ میں نے بجائے وائی فائی کے اپنے موبائل ڈیٹا کو آن کیا اور گفتگو بحال ہو گئی۔ حال چال کے بعد فاروقی صاحب نے میری ڈی پی پر لگی ہوئی تصویر پر رائے دیتے ہوئے یہ کہا کہ “میاں تم نے تو داڑھی رکھ لی۔” جواباً عرض کیا کہ “حضور یہ فوٹوشوٹ کا کمال ہے۔ ایک مہربان دوست (ذاکر اظہار قنبر جو مشہور ذاکر اہل بیت غلام قنبر صاحب شیخوپوری کے پوتے ہیں) نے خود ہی میری تصویر پر داڑھی لگا کے بھیج دی اور میں نے اُسے وٹس ایپ پر لگا دیا۔” اس پر فاروقی صاحب مسکرائے اور باقر مہدی کا یہ شعر پڑھا:

میں نے بڑھائی داڑھی تو کہنے لگے ندا

باقر تمھاری داڑھی اڑا لے گئی ہوا

                ندا سے مراد ندا فاضلی۔ فرمایا کہ باقر مہدی بہت اچھے آدمی تھے۔ بزلہ سنج۔ ایک خاص طرح کا مزاج تھا ان کا۔ باتوں باتوں میں کہنے لگے کہ “تم کہاں ہم نفسوں میں پھنس گئے؟” اشارہ اُس ریویو کی طرف تھا جو میں نے شمیم حنفی صاحب کی کتاب “ہم نفسوں کی بزم میں” پر لکھا تھا اور وہ “ہم سب” میں شایع ہوا۔  یہ کتاب ریڈنگز کے اشاعتی ادارے القا پبلی کیشنز نے چھاپی تھی۔ میں نے عرض کیا “قبلہ آپ بڑے لوگوں کی بڑی بڑی باتیں ہیں، ہم چھوٹے اس میں نہ ہی پڑیں تو اچھا ہے۔” فاروقی صاحب اور حنفی صاحب میں اس نوعیت کی محبتیں چلتی رہتی تھیں۔ اس کے بعد وہ اپنے دوستوں کو یاد کرنے لگے۔ کہا : “میرے دوست طول و عرض میں پھیلے ہوئے ہیں، سوچتا ہوں کبھی ان پر لکھوں مگر کس کس پر لکھوں گا؟ بنگلور میں محمود ایاز تھے، حمید الماس تھے۔ ممبئی میں کیفی اعظمی، مجروح سلطان پوری، ساحر لدھیانوی۔ دلی میں آل احمد سرور بہت پیار کرتے تھے۔ پروفیسر احتشام حسین تو ہم وطن ہونے کے ناتے میرا بہت خیال رکھتے تھے۔” میں نے پوچھا کہ “آپ کا قرۃ العین حیدر سے بھی کبھی رابطہ رہا۔” فرمایا کہ “ہاں لیکن زیادہ نہیں۔  وجہ یہ ہے کہ میں نے شروع میں ہی ان کے بارے میں یہ لکھ دیا تھا کہ قرۃ العین حیدر کو نثر لکھنا نہیں آتی۔ اس پر وہ بہت برہم ہوئیں لیکن اس کے باوجود تعلق رہا ضرور۔ ایک بار الٰہ آباد میں انھیں کہیں جانا تھا، میں اپنی گاڑی میں انھیں لے گیا، دیکھتا کیا ہوں کہ گاڑی کے شیشے میں لپ اسٹک لگا رہی ہیں۔ “

                اپنے مراسم کا بیان کرتے ہوئے گویا ہوئے: “فراق گورکھ پوری کئی مرتبہ ہمارے والد کے بلانے پر ہمارے گھر مشاعرہ پڑھنے آئے۔ ہم فون کر دیتے وہ رکشہ لے کر کے خود آ جاتے تھے۔” جعفر علی خان اثر کا واقعہ سنایا کہ “انھوں نے مشاعرے میں دو تین اشعار پڑھے ، مشاعرہ کے حاضرین نے داد نہ دی اور خاموش رہے، اثر سے ضبط نہ ہو سکا۔ یہ کہہ کر کے اٹھ کھڑے ہوئے کہ صاحبان! باقی اشعار بھی ایسے ہی ہیں۔ “میں نے اسلم انصاری کی کتاب کا حوالہ دیا کہ میر کے بارے میں ان کی کتاب چھپی ہے۔ اس اطلاع پر فرمایا کہ “ہاں صاحب پچھلے دنوں انھوں نے میرے بارے میں مضمون لکھا ہے جس سے متعلق کوئی بتا رہا تھا کہ تمھارے ہاں بڑی ہاہا کار مچی ہوئی ہے کہ اسلم انصاری نے فاروقی کا انہدام کر دیا۔ میاں کچھ لوگ کتاب لکھ کر ایسے سمجھ لیتے ہیں جیسے انھوں نے قرآن شریف  لکھ لیا ہو۔”                 مالک رام نے کہا کہ ” مسعودحسن رضوی پر مضمون لکھو۔” میں نے کہا کہ “مدح میں تو نہیں ہو سکتا البتہ ذم میں ہوگا۔حالانکہ مسعود حسن رضوی کے بیٹے نیر مسعود میرے سب سے اچھے دوست تھے۔ تو ایسا تو ہوتا ہے۔ بریلی شریف میں امام احمد رضا کے حوالے سے بات ہوئی تو کہا کہ میرے ننھیال میں ان کے ارادت مند ہیں لیکن مجھے ان کی شاعری سے کبھی زیادہ دلچسپی پیدا نہیں رہی۔” باتوں باتوں میں بتایا کہ “میں موسیقی نہیں سنتا۔” میں نے کہا کہ “حضور کوئی شرعی معاملہ ہے۔” اس پر کہنے لگے کہ “جو آدمی نماز روزے کا پابند نہ ہو اس کے اس طرح کے مسائل ہو ہی نہیں سکتے۔” ساحر لدھیانوی سے ملاقات کا بارِدگر ذکر کیا۔ فون کے دونوں طرف سے محبت کا اظہار کیا گیا اور فون بند ہو گیا۔

سلیم سہیل
http://auragesabz.gamecraftpro.com/%d8%b3%d9%84%db%8c%d9%85-%d8%b3%db%81%db%8c%d9%84/