مارچ 2009ء کے پہلے دس دنوں کی ایک شام میں راولپنڈی سے بسلسلہ ملازمت چھٹی پر ننکانہ صاحب پہنچا ہی تھا کہ محمد سلیم الرحمٰن صاحب کے بھانجے عمران اقبال کی کال موصول ہوئی کہ ڈاکٹر سہیل احمد خان کو کینسر کا عارضہ لاحق ہو گیا ہے اور وہ شالیمار ہسپتال لاہور میں داخل ہیں۔ میں نے یہ بات سنی اور جس کیفیت سے گزرا وہ بیان نہیں کر سکتا۔

اپنا سفری بیگ جو میرے ساتھ تھا اسے بغیر رکھے لاہور کی راہ لی۔ میں جب دو گھنٹوں کا سفر طے کرکے شالیمار ہسپتال لاہور پہنچا تو سیدھا اس کمرے میں پہنچا جہاں ڈاکٹر سہیل احمد خان بستر پر نیم دراز تھے۔ ڈاکٹر سہیل احمد خان کو بستر پر کئی نالیاں لگی ہوئی تھیں اور ان کے ہاتھ میں سیب تھا جو وہ کھا رہے تھے۔ ان کی بیگم صاحبہ محترمہ نجمہ سہیل پاس کھڑی تھیں۔ میں نے انھیں جس حالت میں دیکھا اس حالت میں کوئی بھی اپنا دیکھا نہیں جاتا اور میری آنکھوں میں آنسو آ گئے۔ انھوں نے مجھے دیکھتے ہی کہا کہ “روئی دا نئیں میں ٹھیک ہو جانڑا اے۔” نجمہ سہیل سے مخاطب ہو کر کہنے لگے کہ یہ سلیم سہیل ہے اور راولپنڈی سے آیا ہے۔ پھر مجھ سے مخاطب ہو کر کہنے لگے تم بڑی دور سے آئے ہو میں بس ذرا دو تین دن میں ٹھیک ہو لوں تو جی سی یونیورسٹی میں تمھاری ملازمت کا اہتمام کرتا ہوں۔ راولپنڈی دور ہے اور تمھیں آنے جانے میں مشکل پیش آتی ہے۔ میں نے کہا سر یہ ہوتا رہے گا۔ آپ جلدی سے صحت یاب ہو جائیں۔ ان کی بیٹی شہرزاد جو اسی ہسپتال میں ملازمت کر رہی تھی، نے مجھے بتایا کہ ہم نے ابو کے خون کے نمونے لیبارٹری بھیجے ہیں، جیسے ہی ان کی رپورٹس آتی ہیں ان کا علاج شروع ہو جائے گا۔ ڈاکٹروں نے ابو کو خون لگانے کا کہا ہے میں جس کا انتظام کر رہی ہوں۔ میں نے پوچھا کہ خان صاحب کا خون گروپ کیا ہے؟ تو انھوں نے بتایا کہ کہ ابو کا گروپ O+ ہے۔ O+ میرے خون کا گروپ ہے۔ میں نے بتایا کہ باجی یہ میرا گروپ ہے اور میں ابھی خون دیتا ہوں۔ یہ کہنا تھا کہ سہیل صاحب یہ بات سن کر بولے “اوئے انا باغی خون مینوں لوانڑ لگا ایں۔” اس کے بعد میں خون دینے چلا گیا۔ ڈاکٹر نے خون نکالنے کے بدلے کچھ معاوضہ طلب کیا جو میں دینے ہی لگا تھا کہ باجی شہرزاد وہاں پہ آئیں اور انھوں نے کہا کہ اگر تم یہ رقم دو گے تو میں یہ خون نہیں لوں گی۔ معاوضہ انھوں نے ادا کیا اور خون بلڈبنک میں جمع ہو گیا اور میں واپس سہیل صاحب کے پاس آ گیا۔ ان کے کمرے میں دواؤں کے اثر سے غنودگی سی محسوس ہو رہی تھی اور ایک اضمحلال نے ماحول کو اپنی گرفت میں لیا ہوا تھا لیکن سہیل احمد خان صاحب تھے کہ ان کے چہرے پر خوف کا سایہ تک نہ تھا اور وہ مجھے کچھ ہدایات دینا چاہ رہے تھے۔ پہلی بات جو انھوں نے کی وہ یہ تھی کہ تمھارے استاد محمد سلیم الرحمٰن بہت جلدی کسی کی طرف ملتفت نہیں ہوتے۔ یہ کرنا کہ ان کے ساتھ جڑے رہنا۔ ان کے پیچھے پیچھے چلتے رہنا۔ دوسری بات یہ تھی کہ جو ایم۔فل کا مقالہ تم نے محمد سلیم الرحمٰن کی نظموں کے بارے میں لکھا ہے اسے ضرور چھپوا دینا۔ سلیم کی نظموں کے بارے میں بہت کم لکھا گیا ہے۔ تمھارا مقالہ چھپے گا تو مجھے اچھا لگے گا۔ اس کے بعد انھوں نے مدرسانہ فضا پر بات کرتے ہوئے کہا کہ آج کل کے استاد اتنی محنت نہیں کرتے جتنی اس کام کے لیے ضروری ہوتی ہے۔ میں تمھارے استادوں سے بڑا تنگ ہوں۔ پڑھانے کے لیے بہت مطالعے کی ضرورت ہوتی ہے جو کہ یہ لوگ نہیں کرتے اور زیادہ وقت سیاست کی نذر کرتے ہیں۔ اس صورت حال کے درمیان میں ہسپتال کا عملہ آتا اور وہ انھیں دیکھ کر جو بھی بیماری سے متعلق امور ہوتے وہ محترمہ نجمہ سہیل اور شہرزاد کو بتاتا اور چلا جاتا۔ سہیل صاحب مجھ سے یہ باتیں کر رہے تھے اور وقت گزرتا چلا جا رہا تھا کہ ایک دم انھوں نے کہا جو ان کے مزاج کا حصہ تھا کہ “پتر ہنڑ تو جا۔” میں بضد تھا کہ میں ابھی کچھ دیر آپ کے پاس رکوں گا لیکن پھر جب امر آ جائے تو معمور کو عامر کے سامنے جھکنا ہی پڑتا ہے۔ میں نے الٹے اور بھاری قدموں سے واپسی کی راہ لی۔ اس کے بعد چند دن وہ اور جیے۔ وہ ڈیفنس کے نیشنل ہسپتال میں ، بعد میں، داخل ہوئے تھے میں وہاں بھی ریڈنگز والے برادر مکرم ڈاکٹر انوار ناصر کے ساتھ ان کی عیادت کے پہنچا مگر وہاں ان سے بات نہیں ہوئی۔ وہ خاموش ہو گئے تھے اور کسی اور جہان کی سیر کے لیے اپنے آپ کو منوا چکے تھے۔ ادبی دنیا میں اور لاہور شہر میں میرا دستگیر خاموش ہو گیا تھا اور میرا چارا بے چارگی میں بدل گیا تھا اور میں اپنے آپ کو زیادہ اکیلا محسوس کرنے لگ گیا تھا۔ اس کے بعد میں راولپنڈی سرسید کالج میں اپنی ملازمت پر گیا تو 13 مارچ کو کلاس پڑھا کے نکلا تھا کہ سہیل احمد خان کے عزیز شاگرد اور میرے ہم کار ڈاکٹر بلال سہیل نے مجھے بتایا کہ جس خبر کو ہم کبھی بھی سننا نہیں چاہ رہے تھے وہ آ گئی ہے۔ مجھے پتا چل گیا تھا اور بلال اور میں فوری طور پر کالج سے لاہور کے لیے راونہ ہو چکے تھے۔ ہم 205 ۔ زیڈ پہنچے تو سوگوار اپنے اپنے تعلق کو اپنے اپنے چہروں پر سجا کر غمزدگی کی تصویر بنے ہوئے تھے۔ میں نے وہاں اپنی ایک ہم جماعت لڑکی کو شدید غم میں مبتلا دیکھا۔ وہ سہیل احمد خان جنھیں میں نے گرج دار آواز میں اور تمکنت کے ساتھ زیست کرتے دیکھا تھا وہ سفید لباس میں ملبوس تھے۔ ان کا جنازہ گھر سے نکلنے کے لیے تیار تھا۔ جنازے میں ان کے بھائیوں کو بھی دیکھا۔ خرم خان اور کوثر خان اپنے بھائی کو ایس بلاک کے قبرستان میں لے کر جا رہے تھے۔ ان کا وہ بھائی جس نے بہت پہلے سے ان سے الگ تھلگ رہ کر جینا شروع کر دیا تھا۔ اب بالکل ہی الگ سفر پر روانہ ہو چکا تھا۔ سہیل صاحب کو سپردِ خاک کیا جا رہا تھا اور میرے آنسو رک نہیں رہے تھے۔ مجھے خرم خان نے تسلی دی جو ایسے موقعوں پر پتا نہیں کتنی سود مند ہوتی ہے۔ اس کے بعد اگلے دن میں اور بلال لاہور میں ہی رکے۔ میں نے دوسرے دن سارے کے سارے اخبار خریدے جن میں سہیل احمد خان کی موت کی اطلاع تھی۔ اس کے بعد ہفتوں سہیل صاحب کے بارے میں جو کوئی کالم لکھتا میں اپنے پاس محفوظ کرتا رہتا۔ میرے لیے اطمینانِ قلب کا یہی ایک وسیلہ تھا۔