سبزی فروشی اور دیگر فروشیاں

یہ تحریر 98 مرتبہ دیکھی گئی

مذاق ہی مذاق میں

میں نے اپنی زندگی کا زیادہ تر وقت کسی نہ کسی فروش کے ساتھ گزارا ہے۔ اپنے بچپن میں ، ظاہر ہے والدین کے بچپن میں تو نہیں، جب میں نے پہلی مرتبہ ایک سبزی فروش کو دیکھا تھا تو ابو جی سے پوچھا تھا: “ابو جی یہ کون ہے جس کے پاس اتنی ساری سبزیاں ہیں؟” مجھے وہ شخص بیک وقت بڑا خوش اختربھی اور پریشان بھی  لگا تھا۔ خوش اختر اس لیے کیوں کہ اس کے پاس ایک ٹوکرے میں ڈھیر سارے لال ٹماٹر رکھے تھے اور ایک چھوٹی سی بوری کے اندر خوشبودار پودینہ اور ہرا دھنیا مہک رہا تھا۔میری نظر میں وہ وسائل کی دولت سے مالا مال تھا۔ جبکہ پریشان اس لیے کیونکہ اس کے گرد قیمت پر بحث کرتے گاہکوں کا جھرمٹ موجود تھا اور اس کے ہاتھ اس قدر تیزی سے بلکہ بجلی کی سی تیزی سے زمین پر بیٹھے بیٹھے ہی چل رہے تھے جیسے وہ دو تین گھنٹوں میں ساری خوشنما اور خوشبودار سبزیاں بیچ دینا چاہتا تھا۔ ٹماٹر، ہرا دھنیا اور پودینہ کے سوا دیگر سبزیوں کے نام مجھے معلوم نہ تھے کیونکہ میں بچپن سے ہی سبزی خور جانور نہ تھا۔ ابوجی نے مجھے بتایا کہ ان صاحب کو سبزی فروش کہتے ہیں۔

 مجھے سبزی کا لفظ تو سمجھ آگیا مگر فروش کا لفظ سمجھ نہ آیا۔ میں نے اسی وقت سبزی فروش کو غور سے دیکھنا اور اس عجیب و غریب لفظ فروش پر غور شروع کیا تو بالآخر اس نتیجے پر پہنچا کہ چوں کہ وہ شخص کسی کرسی یا صوفے پر بیٹھنے کے بجائے نیچے فرش پر بیٹھا تھا، اسی لیے وہ فرش کی نسبت سے فروش ہے۔ اس روز میں گھر واپس آیا تو اسی وقت مچھلی بیچنے والا بھی گلی میں داخل ہوا۔ وہ میرے محلے کا کافی پرانا مچھلی والا تھا۔ اس روز بھی وہ گلی میں آیا اور “تووو ،  تووو” کی آواز نکالنے لگا۔ اس کی آواز کا صحیح لطف لینے کے لیے ت کے اوپر الٹا پیش رکھ کر آواز نکالیں  اور واؤ کو کھینچیں تو آپ کے منہ سے ویسی ہی آواز برآمد ہوگی، تووو۔ میں اس کانام نہیں جانتا تھا اور اسے تووو  ہی کہہ کر بلاتا تھا، جیسے تووو!!!وہ مچھلی نکال۔ تووو!!! مچھلی کے انڈے ہیں؟ اتفاق سے اس روز تووو نے امی جی سے میری شکایت کردی کہ آپاجی، آپ کا آٹھویں نمبر کا یہ منڈا مجھے آپ کے لفظ سے مخاطب کرنے کے بجائے الٹا پیش والا تو ووکہہ کر بلاتا ہے اور نہایت بدتمیزی سے مجھے تو ووکہہ کر مچھلی تلواتا ہے۔ اس نے بڑے شکایتی انداز میں تووو کے ت کے اوپر الٹا پیش لگاکر واؤ کو کھینچا تھا۔ اگر یہ اتنا ہی برا لفظ تھا تو وو ایسی آواز ہی کیوں نکالتا تھا۔ امی جی نے سوچا: میرا پتر اور اتنا بدتمیز۔ امی جی نے اسی وقت میری کلاس لی اور مجھ سے اس کے سامنے پوچھا کہ بیٹا اسے کیسے بلاؤ گے؟ میں نے کہا امی جی، اسے بلانے کی کیا ضرورت ہے، یہ تو خود چل کر گلی میں آتا ہے۔ بلانا تو رکشے یا ٹیکسی کو پڑتا ہے۔ امی نے میرے گال پر اچانک چپیڑ مارنے کی پوزیشن میں اپنا ہاتھ اٹھایا اور  میرے سر پر رکھ کر چھوڑ دیا جو پہلی نظر میں ممتا کی محبت بھرا ہاتھ نظر آتا تھا جیسے کوئی ماں اپنے بچے کے سر پر ہاتھ پھیرتے ہوئے کچھ دیر کے لیے اپنا ہاتھ اس کے سر پر چھوڑ کر بھول جاتی ہے۔ آٹھویں نمبر کا ہونے کی وجہ سے مجھے دیگر بہن بھائیوں کے مقابلے میں ابھی امی جی کے چپیڑ کے مختلف سٹائلز سے واقفیت نہیں ہوئی تھی۔  میرا مختلف جواب پاکر تووو نے اسی وقت زور سے تووو کی آواز نکالی جیسے وہ گلی میں داخل ہوتے ہی اپنی آمد کا صوتی تاثر دیتا تھا ۔ دراصل اس نے  بے وقت وہ آواز نکال کرمجھے وہ نام ری مائنڈ کرانے کی کوشش کی تھی جس سے میں اسے پکارتا تھا، یعنی الٹے پیش کے ساتھ تووو۔ پھر اس نے خود کو کام میں مگن ظاہر کرنے کے لیے اپنے تھیلے سے ایک تازہ مچھلی نکالی اور اس مچھلی کو بھی اپنے تووو کی آواز کے الٹے پیش کی طرح الٹا کرکے امی جی کی خدمت میں پیش کیا۔  امی جی نے مچھلی کا  وزن کروائے بغیر دس کا کرارا نوٹ توو وکے سامنے لہرایا  ۔ توو نے وہ نوٹ جیب میں رکھ لیا اور امی جی نے اسے  مچھلی کے چھلکے اتارنے کا کہا۔گویا دس روپے کا مچھلی کا  ایک دانہ ہوا، مچھلی کلوگرام  کے حساب سے نہ تھی۔

 تووو خوش ہوکر ہمارے گھر کے سامنے ہی بنے فرش پر بیٹھ گیا اور مچھلی کے چھلکے صاف کرنے لگا۔ لیکن اس کا دھیان امی جی کے چپیڑ کی آواز سننے کی طرف لگا ہوا تھا۔ اپنی عزت خراب کرنے والے شخص  کو آپ  کی نظروں کے سامنے   تکلیف پہنچے، یہ  کتنی باعثِ مسرت ہوتی ہے، یہ کوئی اس روز تووو سے پوچھتا۔ امی جی نے تووو کو دس کا نوٹ پکڑانے کے بعدمیری جانب توجہ فرمائی اور  اس بار الفاظ بدل کر مجھ سے وہی سوال دوبارہ پوچھا کہ یہ شخص جو تمھارے سامنے فرش پر بیٹھا ہے، اسے کس نام سے پکارتے ہیں؟

میں نے فرش اور فروش کے درمیان ابھی تازہ تازہ لسانی رشتہ دریافت کیا تھا، اسی لیے فوراً کہا: امی جی، مچھلی فروش۔ تووو جو چپیڑ کی آواز کا منتظر تھا، شاید میرے اس مودبانہ جواب اور اپنی اس اچانک ہونے والی تعظیم پر جھنجلا گیا اور مچھلی کی کھال پر لگے چھلکے اتارتے اتارتے اپنی انگلی پر کٹ لگا بیٹھا۔ جبکہ امی جی نے میرے سر پر شفقت کا ہاتھ پھیرا اور اتنی اچھی اُردو وُوکیبلری پر مجھے دعا دی جو تووو کو بھی سنائی دی۔ مجھے  بھی خود پر ناز ہوا۔ اسی روز جب میں ظہر کی نماز کے بعد لگنے والے مدرسے گیا تو استاد جی کے بجائے ان کا بھانجا سیپارہ پڑھا رہا تھا۔ میں نے اسے فرش پر سپارہ پڑھاتا دیکھ کر اسے زور سے  سیپارہ فروش کہا تو اس نے الگ لے جاکر میری جیب میں دس کا کرارا نوٹ رکھ دیا اور مجھے چپ رہنے کو کہا۔ میں نے پوچھا کہ اصل بات کیا ہے؟ تو اس نے مجھے ایک روپے دے کر تنور سے دو نان لانے بھیج دیا۔ وہاں تنور پر نان فروش ملا جسے میری زبان سے نکلنے والے لفظ نان فروش کا مطلب سمجھ ہی نہیں آیا۔ اس نے چپ کرکے مجھے دو نان  اخبار کے بچوں والے صفحے کے  کاغذ میں لپیٹ کر دیے اور میں اخبا ر کی سطریں پڑھتا ہوا مدرسے کی جانب چل پڑا۔ راستے میں ایک فقیر کے بچے کو جو اپنے باپ کے ساتھ سڑک کے کنارے بیٹھا بھیک مانگ رہا تھا، میں  دیکھ کر رک گیا اور کافی دیر اس بچے کو  دیکھتا رہا۔ مجھے پھر آمد ہوئی اور میرے منہ سے نکلا: بچہ فروش۔ میں نے اس اصطلاح کی گردان شروع کی تو اس چھوٹے بچے کا باپ اسے لے کر وہاں سے نو دو گیارہ ہوگیا۔ پھر وہ وہاں کبھی نہ دکھائی دیا۔ اسی وقت  تھوڑے فاصلے پر علاقے کے جانے پہچانے کونسلر صاحب بھی موجود تھے اور کافی دیر سے مجھے بغور دیکھ رہے تھے۔ میری اس حرکت کوبھی انھوں  نے دیکھ لیا۔ وہ  ان ہٹے کٹے بھکاریوں کی موجودگی کے باعث پریشان بلکہ غصے میں رہتے تھے۔ انھیں تعجب ہوا کہ اس چار میٹر کے لڑکے نے آخر اس بھکاری کو کیا کہہ دیا جو وہ جدی پشتی بھکاری اپنا  بچہ لے کر بھاگ گیا اور پیچھے مڑ کر بھی نہ دیکھا۔ انھوں نے میرے قریب لاکر اپنی گاڑی روکی، مجھے اپنی گاڑی میں بیٹھنے اور مدرسے تک چھوڑنے کی دعوت دی جو میں نے خوشدلی سے قبول کرلی۔یہ وہ وقت تھا جب میری انگریزی  وُوکیبلری  اور گرامر انتہائی خراب ہونے کےباوجود شہر کے معروف انگلش میڈیم سکول میں میرا تازہ تازہ اور اوپن میرٹ پر داخلہ ہوا تھا۔ کونسلر صاحب کی گاڑی میں  بیٹھا تو صرف ہیروئن کی تصویر والے خوب سارے فلمی رسالے دیکھ کر پھر آمد ہوئی اور  میرے منہ سے ہیروئن فروش کا لفظ کئی بار بے اختیار نکل گیا۔ اسے آپ واقعی بھرپور آمد ہی کہہ لیں۔ ویسے بھی اچانک اس قسم کے فلمی رسالے دکھائی دینے سے مختلف اقسام کی چیزوں اور متنوع کیفیات کی ممکنہ آمد ہوسکتی ہے۔ کونسلر صاحب نے اس لفظ ہیروئن فروش کی آمد اور گردان سنتے ہی گاڑی روک دی اور مجھ سے ٹائر پنکچر کا عذر پیش کرکے یہ جا وہ جا۔ مجھے افسوس اس بات کا تھا کہ اخباری کاغذ میں لپٹے  آٹھ آنے والے دو  عدد گرم گرم نان تو کونسلر صاحب کی گاڑی میں ہی رہ گئے تھے۔ 

خیر، میں پیدل مدرسے پہنچا تو مدرسے کی اچانک چھٹی ہوچکی تھی اور استاد جی کا بھتیجا بھی مجھے کہیں نظر نہ آیا۔ میں نے عہد کیا کہ اس کے دیے ہوئے دس روپوں میں سے صرف نو روپے خرچ کروں گا اور ایک روپیہ اس کی امانت کے طور پر بچا کر رکھوں گا یا دو نان خرید کر اسے ضرور دوں گا۔گھر آیا تو امی جی دوبارہ میری بلائیں لینے لگیں کیونکہ میں واحد بچہ تھا جس نے  انگلش میڈیم میں پڑھنے کے باوجود آج امی جی کو تووو کے سامنے اتنی اچھی اُردو بول کر دکھائی تھی۔ وہ شاید سوچ رہی تھیں کہ تووو جہاں جہاں جائے گا، میرے ہونہار بیٹے کی اُردو وُوکیبلری کی تعریف کرے گا۔ 

رات ہوئی تو اباجی ٹی وی پر ایک پروگرام لگا کر کرسی لے کر ٹی وی کےآگے  بیٹھ گئے۔ اس ٹی وی پروگرام میں بہت سے سیاستدان اور شہر کے جانے پہچانے لیڈر ضمیر صاحب سٹیج پر آلتی پالتی مارے ہوئے کچھ کتھا بک رہے تھے۔ ان کی باتیں اور مکالمے تو مجھے سمجھ نہ آئے لیکن مجھے پھر ایک اور بھرپور آمد ہوئی اور میں ضمیر صاحب کوٹی وی کے اندرفرش پر بیٹھا  دیکھ کر ضمیر فروش، ضمیر فروش چلانے لگا۔اباجی نے مجھے کندھے پر اٹھالیا اور رقص کرنے لگے جیسے گلی میں اچانک ڈھول والا آکر ڈھول بجانے لگا ہو اور پورا محلہ اپنے سب کام چھوڑ چھاڑ کر محوِ رقص ہوجائے۔ ابو جی کی نظر میں ان کے آٹھویں نمبر کے منڈے نے شہر کے کرپٹ ترین سیاستدان کو پہلی نظر میں پہچان لیا تھا۔ اگلے روز انھوں نے ڈھیر سارے سیاسی رسالے خرید کر میرے سامنے رکھے اور ایک اتالیق کو بھی پکڑ لائے کہ میرے پتر کو  ٹرین کرو۔ ابو جی کی آدھی اردو اور آدھی انگلش زبان سن کر مجھے لگا کہ وہ ادھیڑ عمر اتالیق صاحب  مجھے ہر شام ابو جی کے حکم کے مطابق پٹڑی پر چلتی ٹرین دکھانے لے جائیں گے لیکن اباجی کا ٹرین اور میری ٹرین یعنی ریل گاڑی میں خاصا فرق تھا اور ان  دونوں یک لسانی اور ذومعنی اصطلاحات میں واضح فرق موجود  تھا۔ اتالیق صاحب نے فرش پر بیٹھ کر مجھے ایک سیاسی رسالہ پڑھانا ابھی شروع ہی کیا تھا کہ مجھے پھر آمد ہوئی: رسالہ فروش ، رسالہ فروش۔ میں انھیں دیکھ کر بولنے لگا۔ وہ حیران ہوگئے اور میرے ہاتھ پاؤں چومنے لگے۔ یہ وہ راز تھا جسے وہ کئی دہائیوں سے اپنے سینے میں چھپائے ہوئے تھے کہ وہ کبھی رسالہ فروش بھی رہ چکے تھے۔ انھوں نے بڑی عقیدت سے مجھے پڑھانا شروع کردیا۔ وقت کے ساتھ میری اردو ووکیبلری اور منطق بڑھنے لگی اور میری سمجھ میں آنے لگا کہ بچہ فروش اور ہیروئین فروش کسے کہنا ہے اور کسے بالکل نہیں کہنا ہے۔ دیگر فروشیاں بھی میری سمجھ میں بخوبی آنے لگیں۔ 

برسوں بعد میں اپنے پرانے محلے سے گزرا تو بوڑھے تووو کو محلے میں مچھلی بیچتے دیکھا۔ میں نے گاڑی سے اتر کر اس کا حال چال پوچھا۔ وہ بھی مجھے دیکھ کر بے حد خوش ہوا۔ اس سے رخصت ہوتے ہوئے میں نے امی جی کے سٹائل میں اسے ہزار روپے کا ایک کرارا نوٹ پکڑایا تو اس کی آنکھوں میں میری  والدہ کو یاد کرکے نمی سی آگئی۔ دس روپے کے کرارے نوٹ کے ہزار روپے کا کرارا نوٹ بننے تک کے سفر میں کتنے چہرے تووو کے ذہن سے مٹ چکے تھے۔ تووو سے ملنے کے بعد میں نے سوچا کہ کیوں نہ پیدل ہی اپنا پرانا  محلہ گھوموں اور پرانی دکانوں کا چکر لگاؤں۔ گاڑی ایک سائیڈ میں  کھڑی کرکے سب سے پہلے سبزی فروش کے پاس پہنچا تو وہاں ایک ہٹاکٹا نوجوانجو نیا سبزی فروش تھا،  دکان کے اندر  زمین پر چادر بچھائے دوپہر کی روٹی کھارہا تھا اور ساتھ ہی اپنے سمارٹ فون پر شاید کوئی گیم کھیلنے یا اہم کام میں مصروف تھا۔ ایک بلی بھی اس کے ارد گرد چکر لگارہی تھی اور ایک بھنگی ٹائپ کا آدمی اس کے پیچھے  سٹول پر بیٹھا سوٹے لگا رہا تھا اور اپنے کئی دنوں کے بغیر شیو والے  منہ سے دھویں کے گولے نکال رہا تھا۔  اس کی دکان میں کچھ سبزیاں گلی سڑی تھیں اور کچھ دوسرے اور تیسرے درجے کی تھیں۔ میں نے فرش پر بیٹھے کھانا کھاتے  سبزی فروش سے درجہ سوم کے ٹماٹر کے ریٹ پوچھے تو اس نے فرش پر بیٹھے بیٹھے اپنے سمارٹ فون پر نظریں جمائے لاپروائی کے ساتھ مجھے خاصے مہنگے دام بتائے۔ مجھے اچانک آمد ہوئی اور میں نے اس سے سوال کیا کہ سبزی فروش بھائی، اگر رات دس گیارہ بجے تک یہ بیس پچیس کلو درجہ سوم کے ٹماٹر فروخت نہ ہوئے تو بالفرض تمہاری قیمت ِخرید  برائے درجہ سوم ٹماٹر ڈیڑھ سو روپے فی کلو کے حساب سے تمہارا کوئی ساڑھے تین ہزار روپے کا نقصان ہوجائے گا۔ یہ گلے سڑے ٹماٹر کون خریدے گا؟ وہ بھی بیس پچیس کلو۔ تمہاری دیگر سبزیوں کی صحت بھی تشویش ناک ہے۔ اس حساب سے تمہارا کوئی دس بارہ ہزار کا نقصان آج رات تک متوقع ہے کیوں کہ اس گھٹیا درجے کی سبزی کو مہنگے داموں خریدنے والے بیوقوف کم از کم اس محلے میں تو نہیں رہتے۔میرے خیالوں  میں ابھی تک اپنا پرانا محلہ اور اس کے پرانے لوگ ہی  بسے ہوئےتھے۔ اگلے ہی لمحے مجھے اپنے اس فعل پر خود ندامت بھی ہوئی کہ روٹی کھانے کے دوران میں نے اسے ڈسٹرب کرکے کوئی شرافت کا مظاہرہ نہیں کیا تھا۔ تاہم اس نوجوان نے بڑے اطمینان سے اپنے فون کی سکرین سے عارضی طور پر صرفِ نظر کرکے اپنے چند قیمتی لمحات مجھے عنایت فرمائے اور فرمایا: “اللہ کا شکر ہے۔ نقصان برداشت کرنے کا حوصلہ ہے۔ دس بارہ ہزار کی تو کوئی بات ہی نہیں ہے۔ ہم تو کھڑے کھڑے بندہ خرید لیں۔”میں نے سوچا کہ ذرا اِس بازارِ انساں  میں اپنی قیمت تو لگا کر دیکھوں۔ میرے وجود، میرے جسم اور میری روح کا گاہک تو میرے سامنے موجود ہے۔ اس سے اچھا موقع اور کب آئے گا؟ ذرا اَپنی قیمت تو معلوم کروں میں اِس جہاں میں ۔ میں نے اُسے مسکراتے ہوئے دیکھا اور کہا: “بہت خوب۔ میرے اس حقیر سے انسانی وجود، اس بے قیمت جسم کی تم مجھے کیا قیمت دو گے؟”اب وہ نوجوان آئیں بائیں شائیں کرنے لگا۔ مجھے فوری آمد ہوئی اور میرے منہ سے ایک لفظ نکلا: جسم فروش۔ اور پھر نکلتا ہی چلا گیا۔

اس نے ادھر ادھر دیکھا اور گھبرا کر دکان کے باہر چھلانگ ماردی اور پھر وہ دکان سے یہ جا وہ جا۔ اسے چھلانگ لگاتا دیکھ کر بلی بھی بھاگ گئی اور وہ سوٹے لگانے والا شخص بھی دکان سے چلا گیا۔  میں حیران پریشان وہیں کھڑا رہا۔ مجھے توو و کی آواز آئی۔ تووو ذرا فاصلے پر مچھلیاں اپنے تھیلے میں اٹھائے تووو، تووو کی آواز یں نکال رہا تھا۔ اتنے عرصے مچھلی بیچنے کے باوجود وہ ایک دکان بھی اَفورڈنہیں کرسکا تھا۔ تھوڑی دیر بعد متوسط طبقے جیسی شلوار قمیص پہنے ہوئے ایک ادھیڑ عمر شخص دکان پر آیا اور مجھ سے اس نوجوان کا پتا کرنے لگا جو ابھی کچھ دیر پہلے کینگرو کی طرح چھلانگیں مار کر کسی نامعلوم مقام کی طرف روانہ ہوگیا تھا۔ وہ شلوار قمیص پوش نووَارد شاید اس  بھگوڑے سبزی فروش  کا سپروائزر تھا کیونکہ اس نے مجھے بتایا کہ وہ بھگوڑا نوجوان اس  سبزی کی دُکان میں نیا  ملازم تھا۔ شاید اسی لیے اسے سبزی فروشی سے زیادہ دلچسپی نہ تھی بلکہ اپنے سمارٹ فون سے زیادہ دل چسپی تھی۔ میں نے اس سپروائزر نما شخص سے ہر قسم کی ناواقفیت کا اظہار کیا اور دکان سے نکل آیا۔ پھر اپنی گاڑی میں جاکر بیٹھ گیا۔

آگے بڑھا تو سامنے سے ایک پولیس والے نے مجھے روکا۔ میں نے بہت کوشش کی کہ پولیس والے کے سامنے مجھے بالکل آمد نہ ہو اور ہوا بھی ایسا ہی۔ شاید اس لیے کہ وہ پولیس والا یا تو نہایت ہی فرض شناس تھا یا پھر وہ مجھ سے بات کرتے ہوئے فرش پر نہیں بیٹھا تھا۔ اس روز مجھے پہلی مرتبہ احساس ہوا کہ انگریزوں نے برصغیر پاک و ہند میں اپنی آمد کے بعد یہاں کے ہر ایک محکمے میں کرسی پر بیٹھنے کا رواج کیوں شروع کیا اور فرش پر بیٹھنے کی ہندوستانی درباری اور دفتری روایت کیوں ختم کردی۔ابھی میں اپنے کمرے کے فرش پر بیٹھا ہوا ہوں اور دو گھنٹے سے لکھ رہا ہوں ۔ یہ کالم اب اختتام پذیر ہے۔اگرچہ یہ کالم میں اپنے کمرے کے فرش پر بیٹھا لکھ رہا ہوں لیکن میں فرش پر بیٹھ کر کالم لکھنے کی وجہ سےمیرے قارئین مجھے  کالم فروش ہرگز   نہیں کہہ سکتے اور نہ ہی میں کالم فروش ہوں۔  اور  مجھے پوری امید ہے کہ آپ  بھی میرے اس کالم کو  اپنے گھر یا دفتر کے فرش پر بیٹھ کر پڑھنے کے بجائے کرسی ، صوفے، چارپائی یا چھ پائی پر بیٹھ کریا لیٹ کر پڑھیں گے تاکہ آپ کے ذہن میں کسی بھی قسم کے خیال کی آمد ہرگز نہ ہو۔ ٭٭٭