جس روز عناصرِ اربعہ؛ پانی، ہوا، مٹی اور آگ کا مرکب تیار کر کے پُتلا بنایا گیا اور اس کے اندر روح پھونکی گئی، اسی روز لفظ ”جنگ“ کو وجود حاصل ہو گیا۔ اِس لفظ کو مفہوم کا پیراہن تن نصیب ہوا جب آدم کو لائقِ مسجود ٹھہرایا گیا اور عزازیل نے آدم کو خلیفہ کے روپ میں مسند نشین دیکھ کر تکبر کا ورد کیا۔ لفظ ”جنگ“ کو مفہوم کا پیراہن ملتے ہی یہ خدشہ لاحق ہوا کہ کہیں ایسا نہ ہو ، جنگ کے ستم و جبر سے نظامِ کائنات درہم برہم ہو جائے۔ نظامِ کائنات میں توازن برقرار رکھنے کے لیے ایک ایسے جذبے کی ضرورت محسوس کی گئی، جو جنگ کی ضد ہوتے ہوئے کائنات کے کینوس میں راحت کا رنگ بھر سکے۔ یہی جذبہ لفظ ”محبت“ کی رگ رگ میں نہاں ملا۔
جب دو طاقتیں اکٹھی ہو جاتی ہیں تو ہر طاقت دوسری پر غلبہ پانے کے لئے تانے بانے بنتی ہے اور اپنی قوت کا مظاہرہ کرنے کی ہر ممکن سعی کرتی ہے۔ ایسا ہی ہوا جنگ اور محبت کے درمیان اور روزِ روشن سے آج تک جنگ اور محبت میں لڑائی جاری ہے۔
جنگ اور محبت دو ایسے آفاقی جذبے ہیں جن کا وجود کائنات کے ذرہ ذرہ میں اپنی موجودگی کا پتہ دیتا ہے۔ لکھاری کائنات کی زبان ہوتا ہے اور یہ کیسے ممکن ہے کہ زبان اُس رمز، جو اس کے وجود کی گہرائی میں پنہاں ہے، سے دنیا کو ناآشنا رہنے دے۔ ایسا ہی ہوا اور دنیا کے تمام لکھاریوں نے ان دو جذبوں کے متعلق خوب لکھا۔ کسی نے محبت کے نغمے گائے، تو کسی نے جنگ کے ستم و جبر کی تاروں کو چھیڑا۔
محبت اور جنگ میں کشمکش کی ایک ایسی ہی کہانی کو ناولٹ ”زلفوں کے سائے میں“ میں بیان کیا گیا ہے۔ یہ ناولٹ چینی زبان کے اُس ناولٹ کا اردو ترجمہ ہے، جس کا انگریزی زبان میں IT HAPPENED AT WILLOW CASTLE کے عنوان سے ترجمہ ہوا تھا۔ اس کا خالق شہیہ ین ہے جبکہ اردو کے قالب میں ڈھالنے کا سہرا ظ۔ انصاری کے سر ہے۔
کہانی کچھ یوں ہے کہ چین میں جنگِ عظیم دُوم کے دوران چینی فوجی ایک گاؤں میں کسان کے ہاں ٹھہرتے ہیں۔ پلٹن کا فوجی، لی جن، جس کی عمر اٹھارہ برس ہوتی ہے، کسان کی بیٹی، ارہمی، کی زلفوں کا اسیر ہو جاتا ہے۔ وہ اس سے شادی کے خواب دیکھتا ہے۔ مگر اُصول آڑے آ جاتے ہیں اور وہ اصولوں پر محبت کو قربان کر دیتا ہے۔
ناولٹ ”زلفوں کے سائے میں“ جنگی تناظر میں رومان کی ایسی داستان ہے جس سے ہندوستانی مٹی کی بو آتی ہے۔ یہ بات باعثِ تعجب ہے کہ چینی سرزمین پر تخلیق ہونے والا ناولٹ اپنے اندر وہ تمام خصوصیات سموئے ہوئے ہے جو ہندوستانی ادب کی پہچان تسلیم کی جاتی ہیں۔
ناولٹ میں جب لکھاری محبت پر قلم اٹھاتا ہے، اصول کی زنجیر اس کے ہاتھوں کو دبوچ لیتی ہے، کسان کی عزت پرستی اس کا رستہ روکتی ہے، اور روایات کی قید اسے آگے بڑھنے نہیں دیتی۔
اس ناولٹ میں یہ بھی دکھایا گیا ہے کہ مشرق میں زمینداری نظام کتنا مضبوط ہے۔ ناولٹ کے کردار ہاؤ، جو کہ زمیندار ہے، کے ذریعے یہ واضح کیا گیا ہے کہ زمینداری نظام کا سرخیل کس طرح لوگوں کو اپنا غلام بنائے رکھتا ہے اور اپنی دولت کی ہوس کی خاطر سفاک پن کی نئی داستان کو کس انداز میں رقم کرتا ہے۔
اس ناولٹ کا دوسرا مرکزی موضوع جنگ ہے۔ اس لیے جنگ سے وابستہ دیگر موضوعات جیسا کہ اصول پرستی، انقلاب، ارادے کی پختگی ، شک، امید اور جلد بازی کے نقصانات وغیرہ کو بھی زیر بحث لایا گیا ہے۔
انسان صبح اویس ہی سے حُسن کا شیدائی ہے اور جہاں بھی وہ خوبصورتی کو دیکھتا ہے اس کی طرف کھینچا چلا جاتا ہے۔ اس ناولٹ میں انسان کی اسی جمالیاتی حس کی تسکین کے لیے کہیں شبابی حُسن کا تذکرہ کیا گیا ہے تو کہیں قدرتی مناظر کی عکاسی ملتی ہے۔
لیڈر وہ شخص ہوتا ہے جو اپنے ماتحت سے ایسا پیار کرے جیسا کہ وہ اپنے فرزند سے کرتا ہے اور ماتحت کا بھی یہ فرض ہے کہ وہ اپنے حکمران کے حکم کی بجاآوری کے لئے ہمہ وقت تیار رہے۔ لیڈر کے تناظر میں یہی فکر اس ناولٹ کی جان ہے۔
محبت، ایک رنگارنگ شش جہت موضوع ہے۔ اور اسی رنگا رنگی کو پوری آب و تاب کے ساتھ شہیہ ین نے ناولٹ ”زلفوں کے سائے میں “ میں نکھارا ہے۔ محبت کہیں عاشق معشوق کے روپ میں ملتی ہے، تو کہیں لیڈر اور ماتحت کی شکل میں۔ کہیں اُصولوں سے محبت کا رنگ غالب ہے، تو کہیں عزت سے محبت کا چراغ روشن۔ کہیں یہی محبت باپ بیٹے کا لبادہ اوڑھ لیتی ہے، تو کہیں وطن سے محبت کا پیراہن۔
ناولٹ ”زلفوں کے سائے میں“ کی خاصیت یہ ہے کہ دو متضاد جذبات کو یکجا کر کے ایک ہی طشتری میں یوں سلیقے سے سجایا گیا ہے کہ ظلم و جبر کی جھنکار، حسن و عشق کی سُر کے مانع نہیں آتی۔
( لی جن کے جذبہ محبت کے نام)
”زلفوں کے سائے میں“ تجزیاتی مطالعہ
یہ تحریر 632 مرتبہ دیکھی گئی