علم صرف معلومات کا ذخیرہ نہیں بلکہ ایک روحانی سفر ہے، جو انسان کو حقیقت کے قریب تر لے جاتا ہے۔ یہ محض کتابی باتیں یاد کرنے کا عمل نہیں بلکہ ایک ایسا شعوری سفر ہے جو انسان کو اس کی اصل پہچان، حقیقتِ زندگی اور مقصدِ حیات سے روشناس کرواتا ہے۔ جیسا کہ علامہ اقبال فرماتے ہیں:
؎ علم کی حد ہے کہاں؟ علم ہے اللہ کا راز
زندگی علم سے ہے، عشق ہے علم کا ساز
تعلیم کسی بھی قوم کی ترقی کی بنیاد ہے۔ یہ وہ روشنی ہے جو انسان کو سمجھ بوجھ کے ساتھ ساتھ بہتر زندگی کا شعور دیتی ہے۔ ترقی یافتہ ممالک تعلیم کو بنیادی حق سمجھتے ہیں لیکن ہمارے ملک کے دیہی علاقوں میں آج بھی تعلیم کو وہ اہمیت نہیں دی جاتی جسکی وہ حقدار ہے ۔ دیہی علاقوں کی تعلیم سماجی، ذہنی اور معاشی رکاوٹوں کا مجموعہ ہے، جس کی وجہ سے خاص طور پر لڑکیوں کی تعلیم اس پسماندگی کا سب سے بڑا شکار ہیں جنہیں سمجھنا اور ختم کرنا وقت کی اہم ضرورت ہے۔دیہی علاقوں کے تعلیمی نظام کی خستہ حالی کی بڑی وجہ جہاٰں غربت ،مہنگائی ،بے روزگاری اور محدود واسائل ہیں ، وہیں دوسری طرف شعور و آگہی کی کمی جو والدین کو اس غلط فہمی میں مبتلا کرتی ہیں کہ صرف دینی تعلیم ہی کافی ہے، جب کہ دُنیاوی تعلیم کو غیر ضروری یا بے کار سمجھا جاتا ہے۔ یہی وہ سوچ ہے جس نے دیہی علاقوں میں شرحِ خواندگی کو پستی کی طرف دھکیل رکھا ہے۔
میری پہلی تقرری بطور اُستاد ایک دور دراز دیہی اسکول میں ہوئی۔ پہلے ہی دن جب اسکول کی حالت دیکھی، تو دل بےحد رنجیدہ ہوا۔ ایک ویران عمارت، جس میں بچوں کا کوئی وجود تک نہ تھا۔ ماحول اُداسی اور بے رُخی کا منظر پیش کر رہا تھا۔ لیکن میں نے اور میرے دیگر چار ساتھی اساتذہ نے عزم کیا کہ ہم اس اسکول کو نہ صرف فعال کریں گے بلکہ علاقہ مکینوں میں تعلیم کا شعور بھی اجاگر کریں گے۔ یہ ایک مشکل فیصلہ ضرور تھا، لیکن ہمارے ارادے مضبوط تھے۔ہم نے سب سے پہلے علاقے کے والدین سے ملاقاتوں کا سلسلہ شروع کیا۔ گلی گلی، گھر گھر جا کر یہ پیغام دیا کہ تعلیم صرف دولت مندوں کے لیے نہیں بلکہ ہر بچے کا بنیادی حق ہے۔ ہم نے انہیں سمجھایا کہ اگر وہ اپنے بچوں کا مستقبل بہتر دیکھنا چاہتے ہیں تو انہیں تعلیم کے زیور سے آراستہ کرنا ہوگا۔ علامہ اقبال کےالفاظ ہمیں حوصلہ دیتے رہے:
؎ اندھیر ہے تو کیا ہوا؟ چراغ تُو جل
یقین ہو اگر خود پہ، تُو راہ بھی چمکا
ہم نے قرآن و سنت کی روشنی میں بھی انہیں یہ بات بتائی کہ دینی تعلیم کے ساتھ دنیاوی تعلیم بھی ضروری ہے کیونکہ دنیاوی علوم سے آشنائی رکھے بغیر قرآن کا مفہوم سمجھنا ممکن نہیں۔ ہماری مسلسل جدوجہد کی بدولت والدین آہستہ آہستہ قائل ہو نے لگے صرف ایک ماہ کے اندر بچوں کی تعداد 100 تک پہنچ گئی۔ پھر یہ سلسلہ رُکا نہیں بلکہ روز بروز بچوں کی تعداد بڑھتی چلی گئی۔ چند ماہ میں یہ تعداد 170 تک پہنچ گئی۔ علاقہ بھر میں ہمارے اسکول کا نام روشن ہونے لگا۔ عوام کا اعتماد سرکاری اسکولوں پر بحال ہونے لگایہاں تک کہ وہ پرائیویٹ اسکول جو پہلے سرکاری اسکول کے بچوں کو داخلہ دینے سے انکار کرتے تھے، وہ ہم سے رجوع کرنے لگے کہ آپ کے اسکول سے فارغ التحصیل بچے ہمارے اسکول میں داخلہ لیں۔ یہ ہمارے لیے نہ صرف خوشی کا لمحہ تھا بلکہ ایک نئے دور کا آغاز بھی۔ یہ جدوجہد ہماری زندگی کا اہم ترین تجربہ بن گئی ۔اساتذہ کی محنت، اخلاص اور قربانی ہمیشہ تاریخ میں سنہرے حروف سے لکھی جاتی ہیں اور ہماری بھی یہ قربانی سنہرے حروف میں لکھنے کے قابل ہے۔کیونکہ جب ایک استاد دیہی ماحول میں مشکلات کے باوجود علم کے چراغ روشن کرتا ہے تو وہ صرف بچوں کی قسمت ہی نہیں بلکہ پورے معاشرے کی تقدیر بدل دیتا ہے۔ الحمدللہ ہمیں اس جدوجہد میں بھرپور کامیابی حاصل ہوئی۔
تاہم مسائل صرف بچوں کے نہ آنے یا اساتذہ کی غیر حاضری تک محدود نہیں تھے۔ اسکول کی زمین کی ملکیت کا معاملہ بھی ایک بڑی رکاوٹ تھا۔ اسکول کی زمین چونکہ حکومت کے نام نہیں تھی، اس لیے زمین کے مالکان اکثر اوقات اسکول کے معاملات میں مداخلت کرتے تھے۔ وہ اسکول کی عمارت کو اپنی ذاتی ملکیت سمجھتے، دھونس جماتے اور کبھی کبھار تو مخالف برادری کے بچوں کو اسکول آنے سے بھی روکتے۔ اس قسم کی مداخلت نہ صرف تعلیمی ماحول کو متاثر کرتی ہے بلکہ مقامی جھگڑوں کو فروغ دیتی ہے۔
میری رائے ہے کہ حکومت تمام سرکاری اسکولوں کی زمین کو قانونی طور پر اپنی ملکیت میں لے ۔تاکہ اسکول ایک غیر جانبدار ادارہ ہواور اسے قانونی تحفظ حاصل ہو، جہاں ہر برادری، ہر مسلک اور ہر طبقے کے بچے بلاخوف و خطر تعلیم حاصل کر سکیں۔دیہی علاقوں میں اسکولوں کا دور ہونا بھی ایک اہم مسئلہ ہےٹرانسپورٹ کی سہولیات نہ ہونے کی وجہ سے والدین بچوں کو خاص طور پر لڑکیوں کو اسکول بھیجنے سے کتراتے ہیں ۔ اسی وجہ سے لڑکیوں کی ایک بڑی تعداد تعلیم سے محروم رہ جاتی ہے۔
میری تجویز یہ ہے کہ چھوٹے چھوٹے پرائمری اسکولوں کی بجائے آبادی کے وسط میں ایک معیاری ہائی اسکول قائم کیا جائے تاکہ بچے کم از کم میٹرک تک تعلیم حاصل کر سکیں۔کیونکہ جب تک ایک بچہ میٹرک نہیں کرتا، وہ نہ شعوری طور پر بالغ ہوتا ہے، نہ ہی وہ اپنے مسائل کو خود سمجھنے اور حل کرنے کے قابل بنتا ہے۔ تعلیم صرف کتابی علم نہیں دیتی، بلکہ شعور، فہم، اور سوجھ بوجھ بھی عطا کرتی ہے۔دیہی بچوں کی ایک اور بڑی محرومی یہ ہے کہ ان کی علمی سطح اان کی عمر کے مطابق نہیں ہوتی ایک بچہ جو آٹھویں جماعت میں ہونا چاہیے، وہ پانچویں جماعت میں تعلیم حاصل کر رہا ہوتا ہے۔کیونکہ اسے بروقت معیاری تعلیم، تربیت یافتہ اساتذہ، اور سیکھنے کے موزوں مواقع میسر نہیں آتے، جس سے اس کی ذہنی نشوونما متاثر ہوتی ہے۔
اتنے مسائل کے باوجود آج جب میں اپنے اسکول کے بچوں کو اسکول یونیفارم میں، بستے اٹھائے، نظم و ضبط کے ساتھ قطار میں دیکھتی ہوں تو میرے دل میں سکون اُترتا ہے۔ یہ وہی اسکول ہے جہاں کبھی سناٹا تھا، آج وہاں زندگی کی لہر ہے۔ میں سمجھتی ہوں کہ اگر اساتذہ اپنے پیشے سے مخلص ہوجائیں، اسکولوں کی زمین اور عمارت کو قانونی تحفظ حاصل ہو، عوام میں شعور بیدار کیا جائے، اور ٹرانسپورٹ جیسی بنیادی سہولیات فراہم کی جائیں تو دیہی بچے بھی شہری بچوں کی طرح روشن مستقبل حاصل کر سکتے ہیں۔
دیہی تعلیم کی ترقی صرف عمارتوں کے قیام سے نہیں بلکہ ذ ہنوں کی تعمیر سے ممکن ہے ہمیں شکایتوں سے آگے بڑ ھ کر عملی اقدامات کی طرف بڑھنا ہو گا کیونکہ ایک کتاب، ایک قلم، ایک استاد، اور ایک بچہ دنیا کو بدل سکتے ہیں۔ تعلیم کی روشنی اگر مسلسل جلتی رہی تو وہ دن دور نہیں جب ہر گاؤں ایک علم کا گہوارہ بنے گا۔
؎ متاعِ لوح و قلم چھن گئی تو کیا غم ہے
کہ خونِ دل میں ڈبو لی ہیں انگلیاں میں نے
زبان پہ مہر لگی ہے تو کیا، کہ رکھ دی ہے
ہر ایک حلقۂ زنجیر میں زباں میں نے”
فیض احمد فیض
دیہی تعلیم: چیلنجز سے اُمید تک
یہ تحریر 99 مرتبہ دیکھی گئی
