درد کی رات گزر جاۓ تو سو جاؤں گا

یہ تحریر 204 مرتبہ دیکھی گئی

درد کی رات گزر جاۓ تو سو جاؤں گا
(خلیل مامون کی یاد میں)

خلیل مامون صاحب نے صرف ایک مرتبہ دنیا سے گزر جانے کاذ کر کیا تھا۔اپنی صحت کے بارے میں کچھ بتاتے ہوئے کہنے لگے کہ اتنے سال کا ہو گیا ہوں یہ عمر بھی اچھی خاصی ہوتی ہے۔نہ کوئی گھبراہٹ تھی اور نہ کوئی ملال تھا۔بہت سی دوسری باتوں کے ساتھ موت کا ذکر معمول کا ذکر معلوم ہوا تھا۔کیا کرنا ہے،کیا رکھا ہے،ٹھیک ہے یہ کچھ ایسے جملے اور الفاظ ہیں جو عام طور پر وہ گفتگو میں استعمال کرتے تھے۔انگریزی کا کریکٹ اور رائٹ یہ دو الفاظ بھی گفتگو کا حصّہ ھے۔مجھے ہمیشہ محسوس ہوا کہ وہ اپنے بارے میں زیادہ سوچتے نہیں ہیں۔اگرچہ صحت کے سلسلے میں بہت حساس تھے۔مستقل طور پر یونانی اور ہومیوپیتھی کی دوائیں استعمال کرتے ۔ اپنی تکلیف کے بارے میں کبھی کبھی بتاتے ۔پاؤں کی ایک انگلی کا آپریشن ہوا تھا،یا اس میں شدید تکلیف تھی،اور باتوں کا ذکر کرتے ہوئے سرسری طور پر وہ آپریشن کا ذکر کیا ۔پچھلے سے پچھلے برس غالب انسٹیٹیوٹ نے غا لب سے متعلق بنگلور میں ایک سیمینار کا انعقاد کیا تھا۔افتتاحی خطبہ خلیل مامون صاحب کا تھا۔بہت تیاری کے ساتھ جلسے میں شریک ہوئے۔یہ میری ان سے دوسری ملاقات تھی۔پہلی ملاقات دہلی میں ہوئی۔انہیں کسی بزرگ کے مزار پر جانا تھا۔ایک ایسا مقام طے ہوا جہاں ان سے ملاقات ہو سکے، اور پھر وہ اپنی منزل کی طرف روانہ ہو جائیں۔پہلی ملاقات میں ایسا محسوس ہوا کہ جیسے کئی ملاقاتیں ہو چکی ہوں۔ان کی شخصیت کا اپنا ایک رعب تھا۔مگر ان سے مل کر اور بات کر کے محسوس نہیں ہوا کہ انہیں اپنے اس مرتبہ کا احساس ہے جو عام طور پر لوگوں کو مضحکہ خیز بنا دیتا ہے۔ان کی شخصیت میں خوش لباسی اور خوش گفتاری دونوں اہم کردار ہے۔ایک اور ملاقات کا خیال آتا ہے،ساہتیہ اکیڈمی میں ان کی کتاب پر مذاکرہ تھا،گوپی چند نارنگ صاحب کی صدارت تھی،مجھے بھی اس موقع کو کچھ کہنا تھا۔خلیل مامون صاحب کی تین نظموں کو پڑھ کر سنایا تھا اور انہی کے حوالے سے بات چیت کی فضا ہموار ہو گئی تھی۔اس موقع پر انہوں نے اپنے بارے میں کچھ کہنے سے گریز کیا تھا۔مجھے یاد نہیں آتا کہ کبھی انہوں نے اپنی شاعری یا اپنی نثر کے بارے میں مجھ سے کوئی گفتگو کی ہو یا فرمائش۔وہ اپنی کتابیں بھیج دیتے اور پھر بے نیاز ہو جاتے۔یہ ادا بہت کم لوگوں کے یہاں باقی رہ گئی ہے۔ایک مرتبہ خوشگوار موڈ میں مجھ سے فون پر کہنے لگے کہ سرور یہ بتائیے کہ کس کو کتاب نہ بھیجی جائے۔میرا جواب تھا کہ آپ پہلے کتابیں انہیں بھیج دیجئے جنہیں بھیجی جانی چاہییں ۔پھر گفتگو اسی موضوع پر آگے بڑھتی گئی۔ کتابوں کے سلسلے میں ان کا تجربہ بہت ناخوشگوار تھا۔کہتے تھے کہ ضروری نہیں ہے کہ آپ جسے کتاب بھیجیں وہ کتاب دیکھے بھی۔لیکن وہ لازماً اپنے پاس آنے والی کتابوں کو پڑھتے تھے اور مجھ سے کبھی کبھی گفتگو بھی کرتے۔دیکھیے کیا لکھا ہے کیسا لکھا ہے۔ان کی مشکل یہ تھی کہ آسانی سے انہیں کوئی کتاب پسند نہیں آتی تھی۔اس کی وجہ یہ ہرگز نہیں کہ ان کا کوئی تعصب تھا بلکہ وہ شاعری ہو یا فکشن یا تنقید دوسری زبانوں کے ادب سے حوالہ دیتے اور کہتے کہ دیکھیے لوگ اس طرح سوچتے نہیں ہیں۔مغربی ادب کا مطالعہ یہ فقرہ رسمی و رواجی سا بن گیا ہے ہر ایک کے بارے میں آسانی سے کہہ دیا جاتا ہے۔مگر ہم یہ نہیں سوچتے کہ جس مغربی ادب کے مطالعے کو کسی سے منسوب کیا جا رہا ہے ،اس کی سمجھ اور بصیرت کیا ہے۔انہوں نے یہ بھی کہا تھا کہ لوگ صرف ناموں اور کتابوں کا حوالہ دے کر سمجھتے ہیں کہ بات بن گئی۔بات بن بھی جاتی ہے مگر محض اطلاعاتی ذہن خود کو اور دوسروں کو علمی اور فکری طور پر آسودہ نہیں کر سکتا۔الگ الگ وقتوں میں جو ان سے گفتگوئیں ہوئی ہیں،وہ میرے مطالعے کے تعلق سے بہت اہم ہیں۔وہ اکثر کسی کتاب کا ذکر کرتے اور بہت خوبصورتی کے ساتھ یہ معلوم کر لیتے کہ وہ کتاب میں نے پڑھی ہے یا نہیں پڑھی ہے۔وہ نئی سے نئی اور پرانی سے پرانی کتابوں کا ذکر کرتے ہوئے بہت کم عجلت سے کام لیتے۔کئی مرتبہ ایسا ہوا یہ کہنا پڑا کہ ابھی میں آپ کو کال کرتا ہوں۔یہ بھی ان کی شخصیت کا ایک اہم پہلو ہے کہ انہوں نے کبھی اس بات کا برا نہیں مانا کہ میں تھوڑی دیر میں آپ سے بات کروں گا۔وہ اس معاملے میں بہت عملی تھے اور سمجھ جاتے تھے کہ کوئی مصروفیت ہے۔کبھی ایسا بھی ہوا کہ کئی دن ہو گئے اور کال بیک نہیں کیا۔پھر جب بات ہوتی تو ذکر بھی نہیں آتا تھا کہ انہوں نے فون کیا ہے۔مجھ سے وہ علمی اور ادبی طور پر اتنا کام لینا چاہتے تھے کہ میں خوش ہونے کے ساتھ ساتھ گھبرا جاتا تھا۔وہ یہ بھی چاہتے تھے کہ میں کتابوں کے ترجمے بھی کروں۔ان میں ایک کتاب سوسان سونتچ کی اگینسٹ انٹرپرٹیشن against interpretation بھی ہے۔illness as metaphor. اس کا ترجمہ بھی ان کے منصوبے میں شامل تھا۔مجھ سے George Steiner کی کتاب language and silence. کا اکثر ذکر کرتے ہیں۔اتفاق سے چند ماہ قبل دریا گنج بک بازار میں کتاب کا دوسرا ایڈیشن مل گیا،اور میں نے انہیں اس کی اطلاع دے دی تھی۔وہ اس قدر خوش ہوئے کہ جیسے کوئی نہ حاصل ہونے والی شے مجھے مل گئی ہو۔کاغذ اتنا خستہ ہے کہ مشکل سے میں اس کے اوراق پلٹ سکا۔یہ واحد کتاب ہے جس کا ذکر انہوں نے مجھ سے سب سے زیادہ کیا ہے۔اور شاید اس کتاب کا ان کے ذہن میں بھی گہرا اثر قبول کیا۔جارج اسٹائنر کی کتاب “ٹالسٹائی اور دوستوفسکی”این اے سے ان کنٹراسٹ کے ذکر سے وہ بہت خوش ہوئے تھے۔ہربٹ ریڈ کتاب موڈرن آ رٹ سے بھی وہ بہت متاثر تھے۔اردو میں ہربٹ ریڈ کا پہلا تذکرہ محمد حسن نے اپنی کتاب اردو میں رومانوی تحریک میں کیا ہے ۔محمود ہاشمی کا ایک مختصر سا مضمون ہربٹ ریڈ پر موجود ہے جو ان کی کتاب انبو ہ زوال پرستاں میں شامل ہے۔اتفاق سے ہر بٹ ریڈ کی یہ کتاب بھی بک بازار میں مل گئی کتاب پوری طرح محفوظ ہے بس اس کا فرنٹ پیج نہیں ہے۔خلیل مامون صاحب کو قدیم ہندوستان کی تاریخ اور تہذیب سے گہری دلچسپی تھی۔تصوف کی طرف ان کا میلان تھا۔وہ اکثر کہتے ہیں کہ میں بزرگوں کا یعنی مشائخ کا عقیدت مند ہوں۔وہ دنیاوی معاملات میں تقدیر کے بہت قائل تھے۔عقیدہ اتنا مضبوط تھا کہ انہیں اپنے اور دوسروں کے معاملے میں زیادہ پریشانی نہیں ہوتی تھی۔وہ اس معنی میں کہ دکھ اور افسوس اپنی جگہ مگر قدرت کا فیصلہ ہے۔خلیل مامون صاحب نے امیر خسرو پر ایک جلسے کا منصوبہ بنایا۔مجھ سے ایک سیشن میں مقالہ پڑھنے یا گفتگو کرنے کے لیے کہا تھا۔میں نے حامی بھی بھر لی تھی مگر میں شریک نہیں ہو سکا تھا۔اس کا رنج بھی تھا اور تکلیف بھی۔مگر فارسی کے ایک اسکالر کا جب نام پیش کیا تو وہ خوش ہوئے۔امیر خسرو کی شخصیت کے کئی رنگ ہیں اور ان کو ہر رنگ میں دلچسپی تھی۔وہ یہ بھی چاہتے تھے کہ امیر خسرو پر اردو میں جو تنقید لکھی گئی ہے ان کا جائزہ لیا جائے۔اس ضمن میں ممتاز حسین کا نام آیا تھا اور مجھے اسی پر گفتگو کرنی تھی۔جیتے جی انہوں نے بہت سے منصوبے بنائے اور اس معاملے میں ان کے یہاں ایک خواب کی صورت تھی۔انہیں کبھی یہ محسوس نہیں ہوتا تھا کہ وقت بہت تیزی کے ساتھ نکل رہا ہے یا بہت وقت نکل چکا ہے۔اس وقت یاد نہیں کہ نیا ادب کا کتنا شمارا شائع ہو چکا ہے۔ایک شمارہ ایسا بھی تھا جس میں کلیم عاجز کی شاعری اور شخصیت پر مضامین تھے اور شاعری کا انتخاب بھی۔وہ کلیم عاجز کی شاعری کو اہمیت دیتے تھے اور کہتے تھے کہ وہ نیچرل شاعر ہیں،اس معنی میں کہ انہوں نے تاریخی حادثے کو ذات کے حوالے سے آفاقی رنگ عطا کر دیا۔ان کی علم دوستی اور ادب سے سچی وابستگی نے مجھے حوصلہ بخشا ہے۔نیا ادب کا جو تازہ شمارہ ان کے پیش نظر تھا،سلسلے میں اپنے انتقال سے ایک دن پہلے لمبی گفتگو کی تھی۔اتنے مسائل ان کے ذہن میں تھے کہ جیسے ایک شمارہ ان سب کا بوجھ اٹھا لے گا۔ابھی محسوس ہوتا ہے کہ انہوں نے جن ادیبوں پر مضامین شائع کرنے کا ارادہ کیا تھا،وہ دراصل ان کی اس آگہی کا نتیجہ تھا کہ پتہ نہیں پھر وقت ملے یا نہ ملے۔کاش ایسا ہو کہ جو شمارہ وہ جس طرح کا شائع کرنا چاہتے تھے اس کا کوئی مسودیا تحریری شکل میں کوئی خاکہ مل جائے تو اس کو اس صورت میں مرتب کیا جا سکے۔نیا ادب کا ایک شمارہ تقریباً دہلی میں تیار ہوا اور اس میں میرے کئی عزیز شاگرد شریک تھے۔ڈاکٹر عبدالسمیع کی کتاب اردو میں نثری نظم بہت پسند تھی اور وہ چاہتے تھے کہ عبدالسمیع نثری نظم کا ایک انتخاب کتابی صورت میں شائع کریں۔ڈاکٹر منظر رضا کی مرتبہ کتاب مکاتیب قاضی عبدالودود جب انہیں ملی تو مجھے فون کیا اور محضر کے بارے میں دیر تک گفتگو کرتے رہے۔دو جلدوں میں قاضی عبدالودود کے یہ خطوط ہماری ادبی تاریخ کا ایک اہم حوالہ ہے۔خلیل محمود صاحب قاضی صاحب کے خطوط پڑھتے جاتے کبھی مجھے تو کبھی محضر کو فون کرتے۔ایک مرتبہ اس حد تک کہا کہ باہر کی دنیا میں بھی بہت کم ایسی شخصیات ہوں گی جیسی کہ قاضی صاحب کی ہے۔ان کے نزدیک قاضی عبدالودود کا سب سے بڑا امتیاز ان کے متعلق اور ذہن کا حاضر اور مرتب ہونا ہے۔اسی کے ساتھ ساتھ وہ یہ بھی کہتے تھے کہ تحقیق میں اتنا معروضی ذہن میں اردو کو شاید پہلی بار ملا۔انہیں اس بات کا بھی احساس تھا کہ قاضی صاحب کی رینج بہت پھیلی ہوئی ہے اس کی وجہ دوسری زبانوں سے ان کی واقفیت ہے۔انہیں اس بات پر رنج تھا کہ اتنے اہم خطوط پر کوئی جلسہ نہیں ہوا اور نہ کسی نے اس پر توجہ صرف کی۔لیکن محضر کی محنت ضائع نہیں ہوگی۔ان کا یہ بھی ارادہ تھا کہ بنگلور میں قاضی عبدالودود اور دو دن کا جلسہ کیا جائے اور ایک سیشن ان مکاتیب پر مشتمل ہو۔مجھے ان کے اس جوش جذبے میں جتنا متاثر کیا تھا اس کا اظہار لفظوں میں ممکن نہیں۔وہ ہمیشہ قاضی صاحب کے ذکر کا کوئی پہلو نکال لیتے۔قاضی صاحب کی تحقیق کے حوالے سے وہ کسی ورق یا اقتباس پر ٹھہر جاتے اور پھر ان کی کال آجاتی۔
انکاؤنٹر میں شائع ہونے والے اسپینڈر کے مضمون کا محمود ایاز نے ترجمہ کیا تھا۔اس کی شائع شدہ کاپی اکرم نقاش صاحب نے مجھے عنایت کی تھی۔انہی دنوں محمد حسن عسکری میں کتاب لکھ رہا تھا،اور عسکری کے کالم میں اسپینڈر کا ذکر تھا۔خلیل مامون حسن عسکری کے اس کالم کا مجھ سے تقاضا کرتے رہے۔وہ چاہتے تھے کہ ان کاؤنٹر اور اسپینڈر پر کوئی ایک مضمون نیا ادب کے تازہ شمارے میں شامل ہو۔2023 کے دسمبر میں غالب انسٹیٹیوٹ کے انٹرنیشنل سیمینار میں وہ غالب ایوارڈ برائے شاعری لینے کے لیے دہلی آئے تھے۔اسی دن ان کی واپسی ہو گئی۔ہمیشہ کی طرح وہ بشاش نظر آئے۔ان کا ذہنی افق عام طور پر مجلس آرائی سے کہیں دور جا پڑتا تھا۔انہیں جلسوں میں تو دیکھا نہیں مگر ان کی گفتگو سے یہ اندازہ ہوتا تھا کہ جو مقالے پڑھے جاتے ہیں،وہ کیوں کر پسند نہیں آتے تھے۔ایک کلیدی خطبہ ذکر آیا تو میں نے اپنی مایوسی کا اظہار کیا۔کہنے لگے کہ آپ نے کچھ زیادہ توقع باندھ لیا ہے۔اسے چلنے دیجیے آپ کچھ نہیں کر سکتے۔تازہ شمار بانی پر ایک گوشہ شائع کرنا چاہتے تھے۔ڈاکٹر ثاقب فریدی کی بانی پر کتاب ان کی نظر میں بانی کے تعلق سے جمود کو توڑنے کی کوشش ہے۔وہ کچھ اچھوتے اور اچھے ادبی کاموں کی اتنی داد دیتے تھے کہ جیسے ان پر کوئی کام ہوا ہو۔تازہ شمارے میں وہ فکشن پر مذاکرے میں ہونے والی گفتگو کو شائع کرنا چاہتے تھے۔ان کا خیال تھا کہ ہندوستان میں جو فکشن لکھا جا رہا ہے اس پر چند سنجیدہ لوگوں سے گفتگو کی درخواست کی جائے۔ویبینار کی شکل میں۔ پاکستان سے ناصر عباس نیر اور اصغر ندیم سید کو اس گفتگو میں شریک کرنا چاہتے تھے۔
سرور ان دونوں حضرات سے آپ بات کر لیجیے
میں بھی بات کر لوں گا
نہیں پہلے آپ بات کر لیجیے
سرور جو ناول ادھر شائع ہوئے ان کے بارے میں ںے باکانہ گفتگو ہونی چاہیے
میں نہیں چاہتا کہ بس یوں ہی تعریف اور توصیف کے ساتھ یہ مذاکرہ ختم ہو جائے
بہت تعریفیں ہو گئی ہیں لوگ اتنا خوش کرتے ہیں کہ مت پوچھے
اس کی ذمہ داری محضر کو دیجئے یا عبدالسمیع کو۔
فکشن کے بارے میں ان کی جو سمجھ تھی وہ مغربی ناولوں کے مطالعے سے بنی تھی۔اردو ناولوں کا یا ہندوستانی ناولوں کا مطالعہ تو تھا ہی۔مجموعی طور پر وہ کسی موضوع یا اسلوب کے سلسلے میں جذباتی نہیں ہوتے تھے۔کئی ناولوں کے بارے میں ان کی رائے جزوی طور پر ٹھیک تھی ورنہ تو رد کر دیتے تھے۔یہ اردو کے وہ ناول ہیں جو گزشتہ چند مہینوں اور برسوں میں لکھے گئے۔میں نے یہ بھی محسوس کیا ہے کہ وہ اپنی رائے کو محفوظ رکھتے تھے اور سننے کا ان میں بہت حوصلہ تھا۔ایک ناول کی وہ تعریف کر رہے تھے،میری رائے مختلف تھی۔ اتنا کہا تھا کہ دیکھیے امیجینیشن کی بہت کمی ہے۔

کتنے برس ہو گئے بنگلور سے فون آتے ہوئے
کتنے دن ہو گئے محمود ایاز کو خلیل مامون کی گفتگو میں سنتے اور دیکھتے ہوئے
کتنے برس بیت گئے فون پر گفتگو کرتے ہوئے اور پھر ایک لمبی خاموشی
سرور بیدل عظیم آبادی کا مد رسہ آپ دیکھ آئے۔کیسا محسوس ہوا
آپ نے جو لکھا ہے،اب ایسا کیجئے کہ ان پر کوئی کام ہونا چاہیے۔
آپ کی نظر میں کون ہے جو بیدل کے کلام کا اردو میں ترجمہ کر سکتا ہے
مجھے بیدل بہت پسند ہے۔
پٹنہ اور اس کے مضافات میں بیدل کی کچھ اور باقیات تلاش کیجئے۔
ابا کیسے ہیں ان کو سلام کہیے
علیم صبا نو یدی کی کتاب بھیجی جا رہی ہے ۔جنوب میں اردو ادب کی تاریخ سے متعلق ہے ۔بہت محنت سے کتاب لکھی گئی ہے ۔دیکھیگا ۔
انتظار حسین سے میں نے بلراج مین را کا ذکر کیا۔کہنے لگے اس نے تو لکھنا ہی چھوڑ دیا ہے
میرا جواب تھا کہ آپ لوگوں نے لکھنے نہیں دیا
بلر اج مین را کی شخصیت کا دوسرا نام ایمانداری ہے
وہ پوری طرح اسٹیبلشمنٹ کے خلاف تھا
اس نے ایک رائٹر کی زندگی جی ہے
سرور مغرب میں بھی مین را جیسے لوگ کم ملیں گے
ایک گفتگو میں اتنے خیالات اتنی باتیں
کوئی سرشاری سی سرشاری ہے
موسم آپ کے یہاں سخت ہوگا
جی یہاں گرمی بہت ہے آپ کے یہاں تو موسم اچھا ہوگا
“یہاں بارشیں ہو رہی ہیں”
یہ جملہ میرے لیے صرف ایک شہر کے موسم کی خبر نہیں تھی
اس میں پورا وجود نہایا ہوا محسوس ہوتا تھا
“بارشیں”کیا حسن ہے لفظ میں اس کی ادائیگی میں۔
بارشیں بنگلور میں ہو رہی ہیں
اس کے چھینٹے دہلی اور عظیم آباد اور اس کے مضافات میں پڑتے تھے۔
“بارشیں ہو رہی ہیں”
یہ جملہ کتنا تخلیقی اور واقعی ہے
بارش ہوتی ہے یا بارش کے آثار دکھائی دیتے ہیں
بارش کی بوندیں شاید کہتی ہیں۔
“بارشیں ہو رہی ہیں”
بارشیں رک رک کر ہو رہی ہیں
کہیں کی رکی ہوئی بارشیں ،کہیں اور کی بارشیں ہوتی ہیں
جنوب کی بارشیں اور شمال کی بارشیں
بھیگی بھیگی سی طبیعت میں بھیگا بھیگا سا ترنم
سرور بارش میں نکل جاتا ہوں
کسی شہر کا موسم بارش میں بھیگنےکا مفہوم بدل سکتا ہے
بارش کا ایسا ذکر کہ جیسے خشکی کا موسم بھیگا بھیگا ہو
خلیل مامون کی طبیعت کی طرح
کوئی تار بارش تھا
کوئی تار نظر تھا
“بارشیں ہو رہی ہیں”

آج یہاں دھوپ بہت سخت تھی۔کل نہیں بلکہ پرسوں بارش ہوئی تھی۔
“آفاق کی طرف۔جسم و جان سے دور۔سرسو تی کے کنارے۔اندھیرے اجالے میں۔سانسوں کے پار۔لا الہ”
نگاہ کتنی دور تک ان کتابوں کے ساتھ جا سکتی ہے
یہ کتابوں کے محض نام نہیں
زندگی کے استعارے ہیں
زندگی کے حقائق ہیں
ا ن میں بن با س کا جھوٹ شامل نہیں
یہ کوئی اور قصہ ہے
جو سچ کے ساتھ جھوٹ کو آئینہ دکھاتا ہے
“نشاط ہم “یہیں کہیں اندھیرے اجالے میں گم ہے
“تاثرات”خیال کی کس منزل کا پتہ دیتے ہیں۔چند تبصرے چند باتیں
“لسان فلسفے کے آئینے میں”
کم لوگوں نے پڑھا اور کم لوگوں نے جانا
مصنف بے نیاز تھا
” ہیڈیگر کے نظام فکر میں انسان”
“ہسرل کی لسانی مظہر یات
یہ آگہی ایک شاعر کہ اندر کی وہ آگ تھی جس سے مفر ممکن نہیں۔
لیکن کتنے شاعروں نے مفر کی راہ نکال لی۔
پوچھ کر تو دیکھیے ہیڈیگر کون تھا
ہسرل کی لسانی مظہر یات کیا ہے؟
خلیل مامون نے کبھی کہا نہیں۔
میرے یہ مضامین پڑھ کر تو دیکھیے
خاموشی کہتی تھی شاعر ہو یا ادیب۔لسانیات کا علم ضروری ہے
اس معنی میں ضروری نہیں کہ اس کو جانے بغیر شعر نہیں کہا جا سکتا یا فکشن نہیں لکھا جا سکتا
بات اتنی ہے کہ آگہی کا عذاب
اس کے بغیر کیسے رہا جا سکتا ہے
بہت لوگ اس کے بغیر کتنے بشاش اور آسودہ ہیں
خلیل مامون کی غزل کے یہ اشعارکیا کہتے ہیں

درد کی رات گزر جائے تو سو جاؤں گا
صبح کی بات بسر جائے تو سو جاؤں گا
نیند کی آس میں پنچھی کی طرح منڈلاتا
آنکھ سے خواب اتر جائے تو سو جاؤں گا
ساعت غم سے بندھا دوڑ رہا ہوں کب سے
وقت کچھ دیر ٹھہر جائے تو سو جاؤں گا
دشت امکاں میں نہیں ملتا کہیں دل کا سراغ
دور دنیا سے نظر جائے تو سو جاؤں گا
جنگ میں نغمہ گل ڈھونڈ رہا ہوں مامون
تیغ سینے میں اتر جائے تو سو جاؤں گا

سرور الہدی
23 جون 2024