دانت کہانی

یہ تحریر 151 مرتبہ دیکھی گئی

دانت کے ساتھ کئ درد پرانے نکلے

بہت کچھ صرف اپنے اظہاریہ کے لیے لکھا جاتا ہے ۔ یہ بھی صرف اظہاریہ ہے ۔کسی بیچاری بہو کی بیچارگی یا اردو ادب کے ساتھ مخولیاں نہیں ۔
بہت سال ہوگئے شاید تین دہائیوں سے زیادہ ابامیاں پرانے برگد تلے اپنی شاہی کرسی پر تشریف فرما تھے حسب مراتب کرسیوں موڑھوں ، پیڑھیوں اور زمین پر پھسکڑا مارے لوگ بیٹھے تھے ۔ سردیوں کے دن اور دھندلی روشنی بکھیرتا سورج ۔ میں اسکول سے آئ اور گھر جانے کے بجائے سیدھی ابامیاں کے پاس پہنچ گئ اسکول کا نتیجہ دکھانے جس میں تقریبا ہر مضمون میں پورے نمبر تھے ۔ وہ پتہ نہیں کیوں بدمزاج سے ہورہے تھے ۔بے توجہی سے کارڈ دیکھ کر واپس کردیا اور غصہ سے بولے ” دانت دیکھو کتنے زرد ہورہے ہیں جاو جاکر صاف کرو “. میں روتی ہوئ جاکر اماں جان سے لپٹ گئ ۔ انہوں نے چمکارا پچکارا اور نتیجہ پر بہت خوشی کا اظہار کیا ۔ پھر عجیب سا کوئلہ اور لال نمک ملا منجن لیکر خوب دانت رگڑوائے ۔ مسوڑھے چھل گئے لیکن دانت سپارکل سپارکل ہوگئے ۔ اس بھرے چوپال میں ہوئ بے عزتی نہ بھولی دوبارہ، اور دو وقت دانت مانجھنا عادت بنالی ۔
پھر شاید انٹر کا دوسرا سال تھا ایک دن کالج سے آکر لمبی تان کر سوگئ اٹھ کر چائے پی ۔ کوئ سب کا من پسند ٹی وی پروگرام ہورہا تھا میں نے ہیرو کے بولے مکالمہ پر کچھ کہا تو میرے دائیں بائیں بیٹھی بہنیں لڑھک گئیں اور چیخ اٹھیں ۔ “اتنی بدبو یہ کہاں سے آرہی ہے “چھوٹے بچوں کے پیمپر چیک کیے گئے لیکن مجرم میں تھی چپکی بیٹھی رہی اور اگلے دن ہی اماں جان کے ساتھ ڈینٹسٹ کے پہنچ گئ ۔ پتہ چلا ساری داڑھیں کیڑا لگ چکی ہیں اور انفیکشن سے بو پیدا ہورہی ہے ۔ جب تک عقل داڑھیں برآمد ہونا شروع نہی ہوئ تھیں ۔ خیر تین دن مسلسل جیل روڈ پر لاہور کالج کے سامنے ایک ڈاکٹر صاحب کے کلینک میں دانت صفائ اور فلنگ ہوئ ۔ جبڑا دکھ گیا دماغ چکرا گیا اور اتنی اذیت رہی کئ دن کھانے پینے کے بجائے صرف ملک شیک پر گزارہ ہوا ۔ ابامیاں روز وہیں لاہور کالج کے سامنے سے جوس پلاتے ۔ یخنی اور دودھ لیےء مسلسل اماں جان پیچھے پیچھے ہوتیں ۔ اور ان دونوں کے ساتھ ان کے کمرے میں براجمان رہی ۔
اس دن 22دسمبر تھا اور موسم سرما کی چھٹیاں شروع تھیں ۔ایک بہت پیاری سہیلی سے کچھ غلط فہمی اور ان ابن ہوگئ ۔ دو بجے کی بس سے اسلام آباد روانگی تھی اتنے میں سہیلی صاحبہ تشریف لائیں اور دروازے پر ہی ایک ڈبہ تھما کر چلی گئیں میرے دیے ہوئے سارے چھوٹے موٹے تحائف اور ساتھ ایک کاپی جیسے اردو کی ایک دستہ پر گتے کی جلد شدہ ہوتی تھیں ۔ ہر صفحہ کی ہر ہر لائن پر I hate you لکھا تھا ۔ میں نے غصے اور جلدی میں چولہے پر رکھ کر پورا ڈبہ سپرد آگ کردیا ۔ راکھ تک بہادی ۔ اور اسلام آباد روانہ ہوگئ ۔ حسین ترین راستہ روتے روتے گزرا ۔ دانتوں کا درد اور دل کا درد مل کر رات تک شدید بیمار کرگیا کئ دن بعد طبیعت بہتر ہوئ ۔ برف باری اور نئے لوگوں سے مل کر بہت تروتازہ ہوگئ ۔
پھر کچھ دو سال گزرے تو عقل داڑھوں نے بغاوت شروع کردی ۔ جیل روڈ والے ڈاکٹر صاحب دکان بڑھا گئے تھے وہیں کہیں ایک اور اچھے ڈینٹسٹ مل گئے ۔ ایکسرے سے پتہ چلا چاروں داڑھیں منہ طرف جبڑے کے اگنے کی کوشش میں باقی دانت توڑنے کی سر توڑ کوشش میں ہیں ۔ چاروں باغیوں کو ہر ہفتہ ایک ایک کرکے بذریعہ ہلکی پھلکی سرجری نکال باہر کیا ۔ ابا میاں اور اماں جان نے سوپ یخنیاں ساگودانے ملک شیک آئس کریم کھلا کھلا کر اور خوب شاپنگ کروا کے درد بھلا دیا ۔ ایک مہینہ ننھے بچے کی طرح دونوں کو چمٹی رہی ۔ اب بتیسی
اٹھائسیںی رہ گئ ۔
پھر ہماری چھتر چھایا ابامیاں چلے گئے ہمیشہ کے لیے اور یوں لگنے لگا جون کا تپتا سورج سر پر فکس ہوگیا ہے ۔
بھرے پرے گھر میں شادی ہوئ پھر کچھ سال گزرے ایک دانت نے نالش کردی ۔ میرے دو بچے ایک چند ماہ اور دوسرا تین سال کا تھا ۔ ایک کام چور ہڈحرام اور نمک حرام مدد گار لڑکی کے ساتھ مل کر دکھتے دانت درد سے پھٹتے سر کے ساتھ تین چار اور کھانوں کے ساتھ ساتھ دال اور چاول پکائے بچوں کو تیار کیا ۔بچے بھی ساتھ لیکر ڈینٹسٹ کے پاس گئ ۔ شہر کے انتہائ مشہور ومعروف ڈینٹسٹ ۔ کئ ہزار میں ایک دانت کی ری فلنگ کی ۔ درد وہیں کا وہیں پتہ چلا درد کش انجکشن لگانا بھول گئے ۔ خیر کسی طرح اونچی دکان سے توبہ کرکے نکلی ۔ گھر پہنچ کر مددگار بچی کو کھانا لگانے کا کہا تو پتہ چلا باورچی خانہ میں خالی پتیلیاں اور جھوٹے برتن منہ چڑہا رہے ہیں ۔ گھروالے کھاپی کر جاسوئے تھے ۔ میاں صاحب بازار سے کچھ کھانا لائے سوپ پی کر اللہ کا شکر ادا کیا ۔ اماں جان ملک سے باہر گئ تھیں ۔کئ دن ڈبل روٹی چائے پر گزارا کیا ۔ رات کو باہر سے سوپ پی آتی بھرے گھر میں کسی نے پوچھنے کی زحمت گورا نہ کی ۔
پھر کچھ وقت گزرا ایک داڑھ سیاہ پڑگئ اوراس کے ٹکڑے سے ٹوٹنے لگے ڈینٹسٹ نے بہت کوشش کی لیکن نہ نکالی جاسکی نہ کوئ اور علاج ممکن ہوا ۔ سی ایم ایچ ریفر کردیا گیا ۔پورا اینستھیزیا دے کر سرجری کے ذریعے داڑھ نکالی گئ ۔ باقاعدہ زخم جسے بھرنے میں مہینہ بھر لگ گیا ۔ جبڑے میں ستائیسی رہ گئ ۔ دکھ دور کرنے کے لیے میاں صاحب شمال کو لے گئے ۔ اماں جان دعائیں دیتی رہیں اب وہ بہت ضعیف ہیں ۔ یہاں گھر والوں کو بتانے کی زحمت بھی نہ کی ۔ آزمائے ہوئے کو کیوں آزمانا باربار دکھ اٹھانے کے لیے ۔
کچھ دن پہلے پھر ایک داڑھ نے احتجاج شروع کردیا ڈینٹسٹ میرا پیارا گودوں پالا بھانجا اس نے اتنی توجہ سے کام کیا ۔ سوائے ایک انجکشن کے کچھ تکلیف نہ پہنچنے دی ۔ اتنے سکون اور اطمینان سے دو تین گھنٹے میں کام کیا۔
گھر میں سوپ ، کھچڑی اور سویاں بچوں نے پکوا رکھی تھیں ۔ میری کتابوں کی میز پر پھول سجے تھے ۔ میاں صاحب چونکہ نیم حکیم ہیں وہ زیتون کے تیل سے بگھار کر چار مغز بادام پستہ خشخاش دودھ میں ابال کر تیار کیے تھے ۔ اماں جان کے فون پر فون آرہے تھے ۔ بمشکل یقین دلایا کہ بالکل ٹھیک ہوں پھر بھی نہ مانیں تو جاکر شکل دکھاکر آئ ۔بوڑھے پیڑ اب بھی زندگی کا بوجھ ڈھوتے گرتے سنبھلتے تھکے ہاروں کے لیے جائے پناہ ہیں
الحمدللہ
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اب ہاتھوں کے لگائے پودے تناور درخت بن رہے ہیں ۔ چند گھڑیاں سانس لینے کو ان کے ساتھ لینے کو ٹیک لگاکر بیٹھ جاتی ہو ں وہ اپنی بانہوں میں سمیٹ کر سب تکلیف دکھ بھلا دیتے ہیں ۔ کتنا پیارا احساس ہے ۔
الحمدللہ ۔