دادی ماں کے لیے

یہ تحریر 156 مرتبہ دیکھی گئی

مزار پر پھول رکھ دیے ہیں
ہم اپنے تہوار کے دنوں میں
گئے ہوؤں کی تلاش میں تھے
سو دیکھتے ہیں
کہ گھیکوار اگ رہا ہے قبروں کے چار جانب
سفید کتبوں پہ کیکروں کی نحیف شاخیں جھکی ہوئی ہیں
گھلی ہوئی ہے فسردہ مہکار سوکھے پھولوں کی خامشی میں
(وہ لوگ کچھ بولتے نہیں ہیں جو گھر میں چہکار کے ذخیرے کے پاسباں تھے)
غروب ہے دل کی اور سورج کی روشنی کا
خموش سائے بڑھے چلے آ رہے ہیں
اس رات کی طرف جو کسی بھی ساعت میں گھیر لے گی
تمام آنکھوں کی خیرگی کو
سلام کرتے ہیں تیرگی کو
جو چھا رہی ہے
چھپا رہی ہے ہمیں ہماری تعفن انگیز رائیگانی کے آئینوں سے
جہاں بھی جائیں ہمارے پیچھے ہے یہ سلگتی ہوئی اگر بتیوں کی خوشبو جو سانس میں زہر گھولتی ہے
نہ کوئی امید جس کے بل پر بڑھے چلیں ہم
نہ حوصلہ ہے کہ رک سکیں ہم
سو کیا کریں ہم۔۔۔؟

ابھی تو جاتے ہیں
ان پرانے گھروں سے جن میں طویل چپ ہے
پلٹ کے آئیں گے جب پناہیں نہیں رہیں گی
عدن کے چو گرد آگ کا پھیر بجھ چکے گا
ہم آپ اپنے مقابل آنے
خود اپنا اغلاط نامہ پڑھنے کے اہل ہونگے
تو لوٹ آئیں گے ان ہی تاریک بستیوں میں
ابھی تو جاتے ہیں دور۔۔۔ لمبا سفر پڑا ہے
ہماری شہروں سے واپسی تک
ہمارے اجداد بے نشانی سے بچ گئے تو
ہم اپنے شجرے کو پھر لکھیں گے۔۔۔