نہایت کے ملنے کی کہانی اس لحاظ سے دلچسپ ہے کہ خالد عبادی نے بک امپوریم کہ حوالے کر دیا تھا۔مجھے پہنچنے میں دیر ہوئی اور وہ دستخط کے ساتھ کتاب کو رکھ کر روانہ ہو گئے۔عظیم آباد میں ایک شاعر کی یہ ادا بہت پسند آئی ،جس میں بے نیازی شامل تھی۔جب کوئی مجموعہ اور شاعری کا مجموعہ اس بے نیازانہ وقار کے ساتھ ملے تو خوشی ہوتی ہے۔شاعر کا اعتماد بھی ظاہر ہوتا ہے،ک اسے گفتگو اور ملاقات سے زیادہ اپنی شاعری پر بھروسہ ہے۔نہ کبھی انہوں نے اس بارے میں کچھ دریافت کیا اور نہ اس کے بعد ملاقات کی صورت پیدا ہوئی۔ایک موقع فون پر گفتگو کا آیا بھی تو انہوں نے اپنی شاعری کا ذکر نہیں کیا۔مجھے بھی کچھ کہنا نہیں تھا ۔نہایت وطن میں رہ گئی تھی،اسے دلی آنا بھی نہیں تھا۔اس مرتبہ چھٹیوں میں کوئی شام نہایت پر نظر پڑ گئی اور پھر اسے دیکھنے لگا۔2019 میں مجموعہ ملا تھا اور آج بائیس ستمبر 2024 کی تاریخ ہے،اور وقت بھی شام کا ہے۔کوئی کتاب اپنے مصنف سے بے نیاز ہو کر اس طرح بھی مطالعے کا حصہ بن جاتی ہے۔مصنف کی بے نیازی جب کتاب کی بے نیازی بن جائے تو کتاب پر اچھا وقت آ جاتا ہے اور مصنف پر بھی۔اپنے بارے میں گفتگو سننا اور گفتگو کرنا اچھا تو لگتا ہے مگر کسی سے وہ را مسدود بھی ہو جاتی ہے،جسے فکر و خیال کی سطح پر بہت آگے جانا ہے۔خالد عبادی شخصی طور پر بھی بہت خاموش ہیں۔دوران گفتگو یہ بھی محسوس ہوا کہ جیسے نہ بولنے کی ضرورت پڑے تو زیادہ اچھا ہے۔بولنا اور بے تحاشہ بولنا کبھی کتنا مشکل اور کبھی کس قدر آسان ہو جاتا ہے۔”نہایت”سے پہلے بھی ان کی کچھ غزلیں پڑھنے کو ملی تھیں ،اور ذہن پر اس کا ایک تاثر تھا۔اپنی ذات اور زندگی میں ڈوبا ہوا کوئی شخص ضروری نہیں کہ شاعری میں بھی فکری سطح پر بہت ڈوبا ہوا اور گہرا ہو۔اول تو غزل میں فقرہ اور اعزاز کی سطح پر گہرائی کا تصور ہی بدل گیا ہے یا کمزور ہو گیا ہے۔غزل گوئی کے سیاق میں مشکل وقت خیال پر آیا ہے۔کہا جا سکتا ہے کہ خیال تو موجود ہے، کس خیال کا آپ کو خیال آیا ہے۔بلاشبہ جو بات کہی جا رہی ہے اس میں کوئی نہ کوئی خیال تو موجود ہو مگر خیال کی سطح بھی تو خیال کو مختلف بناتی ہے۔خیال کی سطح تخلیقی ذہن سے کچھ اس طرح وابستہ ہے کہ جیسے تخلیقی ذہن کا دوسرا نام خیال ہے۔خالد عبادی کی غزلوں کو پڑھ کر کوئی بھی سنجیدہ پڑھنے والا محسوس کر سکتا ہے کہ ایک ذہن ہے جو زندگی اور کائنات پر غور کرنا چاہتا ہے،اس حقیقت کے باوجود کہ پہلے بھی بڑے اذہان نے غور کیا ہے ۔خالد عبادی کا ڈکشن بھی ان کے معاصرین کے مقابلے میں زیادہ مختلف اور مشکل ہے۔کچھ ایسی ترکیبیں بھی نظر آئیں جنہیں غزل کے دو مصروں میں فکری اعتبار سے سنبھالنا آسان نہیں۔ترکیب سازی شعر گوئی کا حصہ۔خیال کی کوئی لہر یا سطح اپنے ساتھ لفظ اور ترکیب کو بھی ساتھ لاتی ہے اور کبھی یہ محسوس ہوتا ہے کہ جیسے ترکیب اور ترکیب سازی کا خیال شاعر کو پہلے آیا ہے۔خالد عبادی نے اس مختصر سے مجموعے میں ایسے اشعار شامل کر دیے ہیں جو “نہایت” کا جواز فراہم کرتے ہیں۔کئی شعروں پر رکنا پڑتا ہے،اور یہ کہنا پڑتا ہے کہ خیال کی سطح پر کیسی انتہائی صورت موجود ہے۔اس انتہائی صورت میں داخلی اہم ڈکشن کی وجہ سے دب سا جاتا ہے۔یہ کوئی شعوری عمل تو نہیں لیکن دیکھا جا سکتا ہے کہ شاعر نہ تو آواز کو پر شور بنانا چاہتا ہے اور نہ اسے زیر لب ہی کہنے کا ہنر عزیز ہے۔کچھ شعروں میں زمین اور آسمان کو زیرو زبر کر دینے کی شدید خواہش موجود ہے۔اگر نظم ہوتی تو ممکن ہے زیرو زبر کی صورت کچھ دیر تک اور دور تک دکھائی دیتی۔نہایت میں ایسے اشعار موجود ہیں جو اس بات کو جھٹلاتے ہیں کہ غزل فکری سطح پر کمزور ہوئی ہے اور وہ یکسانیت کی ماری ہوئی ہے۔خالد عبادی کی تخلیقیت میں اپنی ادبی روایت سے گریز نے بلکہ اپنی طرف سے شرکت کرنے کی خواہش موجود ہے۔روایت کوئی ایسی شے نہیں جسے تخلیق کے اوپر اور بے پناہ تخلیقی ذہانت کے بغیر بے دخل کیا جا سکے۔خالد عبادی کہ یہاں آسانی اور مشکل دونوں کی کار فرمائی موجود ہے۔لیکن یہ آواز کسی اور سے میل نہیں کھاتی۔رک کر اور ٹھہر کر غور کرنے کا تقاضا کرتی ہے۔معلوم نہیں ہے انہوں نے کیا سوچا تھا اور جو سوچا تھا وہ تحریر میں آتے آتے کیا صورت اختیار کر گیا۔
کسی اواز پہ چونکوں تو عجب ہے گویا
کسی تحریر پہ ٹھہروں تو ہنسی آتی ہے
ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ایک شاعر ہی نہیں بلکہ ایک حساس قاری کی حیثیت سے انہیں اپنے زمانے کی یکسانیت کا شدید احساس ہے ۔اب نہ تو کسی آواز پر چونکا جا سکتا ہے اور نہ کسی تحریر پہ رک کر غور کیا جا سکتا ہے۔ممکن ہے مجموعی طور پر یہ صورتحال نہ ہو لیکن جو صورتحال ہے اس کے پیش نظر یہ شعر کچھ کہتا ضرور ہے۔خالد عبادی کی تقریباً ہر غزل میں ایک دو شعر ایسا موجود ہے جو زندگی اور کائنات کو اس نظر سے دیکھنا چاہتا ہے جسے گہری نظر کا حامل بننا ہے۔اسی غزل کا یہ شعر بھی ہے۔
اس لیے ارض و سما زیر و زبر رہتے ہیں
اس لیے صرف یہی بات مجھے بھاتی ہے
خالد عبادی نے ٹھوس اشیاء سے سروکار کم رکھا ہے اور رکھا بھی ہے تو اس کی تجرید کا عمل فعال دکھائی دیتا ہے۔یہ کیسی خوبی ہے جو موجودہ وقت میں کم دکھائی دیتی ہے۔
خواب کوئی کیا دیکھے اس بے خوابی میں
چین نہیں مل پاتا ہے بے تابی میں
کچھ تو عالم امکاں میں ایسا ہوگا
حیرت ہی حیرت ہے جس کی یابی میں
یاروں کی تو سرتابی تک ہے مشکوک
میرا اپنا لہجہ ہے سرتابی میں
خنجر سے کچھ لکھتا رہتا ہوں تن پر
یا اک باب اضافہ ہے خون نابی میں
یہ آواز کتنی مختلف معلوم ہوتی ہے۔یہاں غزل کی شاعری کو سبک اور سجل بنانے کے بجائے فکر کہ کسی ڈور کو سنبھالنے کی یا پکڑنے کی کوشش دکھائی دیتی ہے۔ذات اور کائنات کسی ایک شعر میں بھی اپنی وحدت کا احساس د** سکتے ہیں اور کبھی غزل میں ذات اور کائنات الگ الگ طور پر نہ ختم ہونے والی الجھنوں کا بتا دیتی ہیں۔بے تابی کا خواب سے کیا رشتہ ہے اور بے خوابی کیوں کر بے تابی سے گریزہ ہے۔یہ وہ سوال ہے جس کا جواب صرف شعر میں موجود ہے۔کھلی آنکھوں سے خواب دیکھنے والے اچانک اتنے پیدا ہو گئے کہ ہر طرف کسی کی آواز سنائی دینے لگی۔خالد عبادی بے خوابی کو خواب کی راہ میں حائل بتاتے ہیں۔یہ بھی کوئی کہنے کی بات ہے کہ بے تابی کے عالم میں چین نہیں مل پاتا۔لیکن یہاں یہ بات کتنی گوارا اور یقینی معلوم ہوتی ہے۔بے تابی بے خوابی کا سبب ہے یا بے خوابی بے تابی کی وجہ سے ہے۔”عالم امکاں” کی ترکیب کا خیال حیرت کے ساتھ آتا ہے۔متکلم کو اس بات کا گمان ہے کہ عالم امکاں میں سب کچھ ایسا نہیں ہے جس پر حیرت کا اظہار کیا جائے گا۔
خنجر سے کچھ لکھتا رہتا ہوں تن پر
یا اک باب اضافہ ہے خوں نابی میں
اپنی ہی ذات تخلیق کے نام پر جب تختہ مشق بن جائے تو اس کا اظہار اسی زبان میں ممکن ہے۔خنجر سے کچھ لکھا تو نہیں جا سکتا لیکن خنجر کا عمل ایک ایسی لکھاوٹ کو سامنے لاتا ہے جسے خالد عبادی نے ہے ایک باب کا اضافہ قرار دیا ہے ۔اس غزل کا آہنگ دیکھیے۔
بے حرف آرزو ہے بے تیغ معاش ہے
یوں بھی نہیں کہ سینہ عالم خراش ہے
میں وہ بھی دیکھتا ہوں نہیں دیکھتا کوئی
سب کے سروں پہ سایہء گم ارتعاش ہے
میرا تو سر نصیبہ دام فنا ہوا
ہوگا کسی کا سچ میں اگر پاش پاش ہے
جیسے کسی نیاز میں ڈوبا ہوا طلسم
وہ بن رہی ہے دل میں جو تصویر کاش ہے
سب کی رگوں میں خون مجھی جاں فراغ کا
جو سب میں ہے پڑی ہوئی میری ہی لاش ہے
دنیا کسی میں کھلتی ہوئی گل بہ گل تمام
یہ کر کے جو دکھا دے وہی قزلباش ہے
غزل کا آہنگ داخلی کچھ اس طرح ہے کہ جیسے خارجی آہنگ کی طرف اسے آنا ہے۔اندر اور باہر کی یہ وہ کشاکش ہے جو جذبے کی شدت کو ابھرنے کا موقع نہیں دیتی۔اس غزل میں کئی ایسے ٹکڑے ہیں جو آسانی سے حاصل نہیں ہوتے۔”سینہ عالم خراش ہے”اس کو پڑھتے ہوئے پیشانی کی لکیروں اور چہرے کی خراشوں کا خیال آتا ہے۔لیکن سینہ فرد واحد کا نہیں بلکہ ایک عالم کا ہے۔”بے حرف آرزو ہے بے تیغ معاش ہے۔”اس کی تعبیر اگر نبی کی جائے تو اس کی قرآت ہی کافی ہے۔غزل کا دوسرا شعر ایک ایسی آواز ہے جو دھیرے دھیرے بڑی آواز میں تبدیل ہو جائے گی۔شاعر کی بصیرت ایک گہرے اور گمبھیر فکر کا نتیجہ ہے۔اس فکر کو شاعر نے احساس میں تبدیل کر دینے کی کوشش نہیں کی ہے۔متکلم اپنی نظر کو کچھ زیادہ اہم بنا کر پیش نہیں کرتا۔بس ایک لفظ بھی ہے جو شاعر کی نظر کو دوسروں کی نظروں سے الگ کر دیتا ہے۔
میں وہ بھی دیکھتا ہوں نہیں دیکھتا کوئی
سب کے سروں پہ سایہ گم ارتعاش ہے
“سایہ گم ارتعاش ہے”اس ایک ٹکڑے میں ایک دنیا سمٹ آئی ہے،یہ دنیا خاموشی کی ہے گمشدگی کی ہے،لیکن یہ کس قدر مضطرب اور بے قرار ہے۔اس کی بدلتی ہوئی دنیا نہ جانے کس کھوئی ہوئی دنیا کی متلاشی ہے۔ابھی جس حیرت کا ذکر ہو رہا تھا،اس کے ساتھ خالد عبادی کا یہ شعر پڑھیے۔
صدائے غیب سے معمور ہے کاشانہ حیرت
مری شوریدگی کس ملک کی تصویر رکھتی ہے
صدائے غیب اور کاشانہ حیرت دونوں نے مل کر شوریدگی کی تہذیب کر دی ہے لیکن شوریدگی کی فطرت میں آوارگی ہےآوارگی کتنی مہذب ہو سکتی ہے۔خالد عبادی کو اس شعر پر بطور خاص داد ملنی چاہیے۔شوریدگی کے پیش نظر کس ملک کی تصویر ہے،کون بتا سکتا ہے۔ایک سوال ہے اور اس کا جواب شوریدگی کے پاس بھی نہیں ہے۔ایک ایسا خیال جسے بار بار آزمایا گیا خالد عبادی نے اس میں ایک نئی جہت کا اضافہ کر دیا۔صدائے غیب کی ترکیب شوریدگی کے لیے خوشی کا باعث ہے یا نہیں،اس بارے میں کچھ کہا نہیں جا سکتا۔زندگی اور کائنات کی حیرتوں کو خالد عبادی میں جس فنکارانہ انداز میں یہاں پیش کیا ہے وہ تخلیقیت کی اہم مثال ہے ۔شوریدگی اور جنوں کو صدائے غیب کی ترکیب نے یقین کی دولت بھی فراہم کر دی ہے۔یہ احساس ہی تو ہے کہ کائنات حیرت بھی ہے اور غیب کی آواز بھی۔اس شعر کو پڑھ کر حامدی کاشمیری کی ایک اکتشافی تنقید کا خیال اتا ہے۔اس غزل کا مطلع بھی ملاحظہ کیجئے۔
مجھے آوارگی بیگانہ زنجیر رکھتی ہے
مگر یوں ہے کہ زیر پا سر شمشیر رکھتی ہے
آوارگی کا یہی تیور ہے جو کلاسیکی غزل سے چلا آتا ہے۔زیر پا سر شمشیر کا ہونا کتنا حوصلہ افزا مگر خطرناک ہے۔خالد عبادی نے اپنی آواز کو بدلنے کی کوشش کی ہے اور نہ یہ آواز کسی فیشن کا نتیجہ ہے۔ذات کا اظہار جب تخلیقی تجربے کی سچائی کا بتا دینے لگے تو اس کی عمر وقت کے ساتھ بڑھتی جاتی ہے۔
خالد عبادی کہ یہاں حیرت اور اسرار نے جو فضا بنائی ہے وہ ڈراتی تو نہیں لیکن یہ ضرور ہے کہ اس سے شاعر کی ترجیحات کا اندازہ ہو جاتا ہے۔کائنات میں کتنی حیرانی ہے،اور کتنی حیرانی تخلیق کار کی آنکھوں میں ہے۔؟ اور یہ حیرانیاں مل کر شاعری کو کتنا پراسرار بنا دیتی ہیں, یہ وہ مسائل ہیں جن کا بوجھ بڑی شاعری اٹھا سکتی ہے. خالد عبادی کو بڑی شاعری کہ اس رمز کا احساس ہے۔

چپ یہاں کوئی نہیں میری خموشی کے سوا
دشت ہنگامہ اسرار سے آباد ملا
رنگ ہی رنگ ہوئی خاک تلون سے مرے
ورنہ اس دشت میں نیرنگ نظارہ کیا ہے
ابھی تو ہڈیوں کو سرمہ اسرار بننا ہے
لگایا جا رہا ہوں سینہ حیرت سے کیا معلوم
زمین جھکتی چلی جا رہی ہے سوئے فلک
بلند ہوتے چلے جا رہے ہیں گرد و غبار
تمام عمر گزاروں اسی خرابے میں
اسی خرابے میں تھوڑی جگہ برائے مزار
چشم حیرت نے نظارہ کیا غنچہ دہنی
خونی گلشن میں تیرا ہاتھ نہیں دست صبا
مجھے وہ دیدہ حیرت عطا ہو گرد کے پڑتے
ادھر سرو رواں ٹھہرے،ادھر آب رواں ٹھہرے
یہ شہر و دشت بربادی یہ ارض وادی لرزاں
علم سرتاب ہونے تک شب تیرو سناں ٹھہرے
ترا کھلنا مرے سائل در زنداں کا کھلنا ہے
تو پھر مفہوم جسم و جاں یہی آہ و فغاں ٹھہرے
گزرنا سانحہ کا دیدہ و دل پر ہوا معلوم
تو اب جو بھی کہا جائے خدا معلوم نہ معلوم
صدائے غیب پر چونکوں تیری تجسیم ہو ارزاں
کسی تعبیر کو ہونا ہی تھا خواب وفا معلوم
کسی کی ارزو سے خاک امکاں نم نہیں ہوتی
تو یہ صحرا نوردی چشم کرنے کی بصیرت کیا ہے
میری بے اختیاری سینہ تحریم میں خلوت
کشیدہ بے اثر رہتا ہے سرو خوش ودیعت کیا
ان اشعار کی فضا غزل کی عمومی فضا سے بہت مختلف ہے۔یہاں غزل سادہ بیانی کی گرفت سے اس لیے باہر نہیں ہے کہ اسے مشکل پسندی کے ساتھ ابہام کا تاثر پیش کرنا ہے۔جہاں سادہ بیانی ہے وہ بھی اپنا ایک جواز رکھتی ہے، جہاں خیال کو کچھ اظہار کی سطح پر عام ڈگر سے ہٹ کر پیش کرنے کی کوشش ملتی ہے وہ بطور خاص توجہ طلب ہے۔اس کی وجہ یہ ہے کہ ان کے معاصرین کے یہاں زبان کو برتنے کا یہ سلیقہ بہت مشکل سے ملے گا۔اس سے پتہ چلتا ہے کہ خالد ابادی کو اپنے اہم ترین پیش رہو غزل گو شعرا کی غزل گوئی کا گہرا شعور ہے اور وہ اپنی بات کو مختلف اسالیب میں پیش کر سکتے ہیں۔ایک اسلوب تو ایسا ہے جس میں وہ مجھے سب سے الگ دکھائی دیتے ہیں۔اسلوب کو ترکیب سازی اور کائنات کے مستقل گہرے رازوں کو اپنے طور پر دیکھنے اور سمجھنے کا شعور ہے۔وہ بار بار زمین آسمان اور گرد و غبار کا حوالہ دیتے ہیں۔انہیں اسمان کی بلندی سے نہ خوف اتا ہے اور نہ زمین اپنی سطحیت کے ساتھ بہت معمولی دکھائی دیتی ہے۔ مندرجہ بالا اشعار کو بغور دیکھیے تو اندازہ ہوگا کہ وہ خیال کی سطح پر کتنی دور تک جا سکتے ہیں۔غزل کے ساتھ مشکل یہی درپیش ہے کہ وہ عام طور پر قافیہ پیمائی کا تاثر پیش کرتی ہے اور ایسا محسوس ہوتا ہے کہ جیسے قوافی کو سامنے رکھ کر ابھی بھی غزل کہنے کا سلسلہ جاری ہے۔خالد عبادی نے جس فکری اور لسانی سطح پر اپنی مشکل پسندی کا ثبوت پیش کیا ہے وہ محض مشکل پسندی نہیں ہے بلکہ اس سے ان کے تخلیق ذہن کی انفرادیت کا اظہار ہوتا ہے۔کہتے کہتے چپ ہو جانا بھی انہیں آتا ہے،جہاں وہ کہتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں وہاں بھی خاموشی کا کوئی عنصر درآیا ہے۔
سرور الہدی
تین اکتوبر 2024
د ہلی