26 جنوری، 1963 کو سرگودھا میں پیدا ہونے والی حمیدہ شاہین ایک ایسی شاعرہ ہے جس کی شاعری میں مرد حضرات آئینے کی طرح اپنے حرکات و سکنات اور اعمال و افکار کا جائزہ لے سکتے ہیں۔ صنف نازک پر عموماً مردوں کی ایسی اجارہ داری رہی ہے جس میں ان کو کھیتی باڑی یا دیگر پیداواری ذرائع سے زیادہ اہمیت نہیں دی گئی۔ غزل نے بھی نسوانی اعضاء اور جسمانی حسن کو اتنی شد و مد سے ابھارا کہ عورت کا انسان یا کم سے کم مرد کے مساوی ہونا مشکوک ٹھہرا۔ غزلوں نے عورت کی تخصیص اس انداز سے کی کہ اب غزلیں صرف بہ طور کتھارسس یا تزکیہ نفس کے لیے لکھی، پڑھی اور گنگنائی جاتی ہیں۔ اگر مذہب کی آڑ میں قدامت پسندوں نے عورت کو مرد کے مساوی تصور نہیں کیا تو شاعری کی آڑ میں جدت پسندوں نے بھی عورت کے خوب بخیے ادھیڑ دیے۔ حمیدہ شاہین کی شاعری قدم قدم پر مردوں کو یاد دلاتی ہے کہ عورتیں نہ صرف انسان ہیں، بل کہ ان کے جذبات بھی ہیں۔ ان کی شاعری روایت پرستی اور مرد پرستی کے خلاف ہے اور حتی المقدور ان حدود کی نشان دہی کرتی ہے جس کے بعد نسوانیت داؤ پر لگ جاتی ہے۔ “دستک” اور “دشت وجود” ان کے معروف اردو شعری مجموعے ہیں۔
حمیدہ شاہین کی شاعری پڑھنے سے بعض اوقات مردانگی کو غیرت آتی ہے کہ آخر صنفِ نازک کا قلم سے کیا واسطہ ہے، مگر مرد نے ادب اور مذہب کے نام پر صنف نازک (میرے نزدیک صنف آہن) کے خلاف جو کچھ بویا ہے، اس سے کاٹنا پڑے گا۔ حمیدہ شاہین کو اس زمین کے سوا کسی اور خطہ دل نشیں اور مرد کے سوا کوئی اور چارہ ساز کی تلاش ہے۔ ان کی خواہش ہے کہ اپنے پاؤں پر کھڑی ہونا سیکھ لیں۔ وہ بدن کی بھول بھلیوں اور دشت تحیر سے باہر نکلنا چاہتی ہے۔ وہ وجود کے قید سے آزاد ہوکر دور فضاؤں میں اڑنا چاہتی ہے۔ وہ مقدس رشتے کی آڑ میں آدم زاد کے آگے ساری عمر سجدے میں گزارنا نہیں چاہتی۔ ان کو حیوانوں کی بستی میں ان انسانوں کی تلاش ہے جو عورتوں سے بالاتر ہونے کے بجائے برابری کی بات کریں۔ حمیدہ کو ہمیشہ کے لیے فرائض کی بھٹی کا ایندھن بننا پسند نہیں، وہ جینا چاہتی ہے۔ ان کی شاعری میں مردوں کے ساتھ شانہ بشانہ چلنے کا بار بار ذکر کیا گیا ہے۔ وہ بے ثمر مرنا نہیں چاہتی۔ وہ روپ، جوانی اور بدن کی باتیں کرنا پسند نہیں کرتی۔ حمیدہ کو مرد اور عورت کے رشتے کی عظمت اور تقدیس کی فکر ہے۔ ان کے مطابق عورت کی مثال ایک شجر کی سی ہے جو خود دھوپ میں جل کر دوسروں کو چھاؤں عطا کرتی ہے۔
حمیدہ کو بہت افسوس ہے کہ عورتوں کی زندگی خون سے وضو کرنے کے بعد پھر کہیں صلوٰۃ آبرو پڑھتی ہے اور ان کے آنچل پہ داغوں سے زیادہ آنسوؤں کے نشان ہوتے ہیں۔ وہ احتجاج کرتی ہے کہ وہ صدائے وحشتِ گل ہے، اس کو غور سے سننا چاہیے اور وہ کوئی پھول نہیں جسے مرد نے چمن سے چن کے لایا ہو۔ حمیدہ شاہین کہتی ہیں کہ عورت کبھی بھی اپنی مشکلات اور تکالیف کے اظہار کے لیے لب نہیں کھولتی، مگر اپنی بیٹی کے واسطے لاچار ہوکر چشم تر سے اپنی جھولی آنسوؤں سے بھر دیتی ہے۔ وہ شادی کو قید بامشقت سے تشبیہ دیتی ہے جس میں سماعتوں اور اذن گویائی پر پابندی ہوتی ہے اور جس میں فلک سے زیادہ زمین کا خوف ہوتا ہے۔ ان کی شاعری فی الحقیقت رودادِ ظلم ہے۔ وہ ہر قیمت پر صنفی امتیازات کو ختم کرنا چاہتی ہے۔
عورت انسان ہے۔ وہ تحفہ خداوندی اور راحت ہے۔ جب مرد اس نعمت سے ہاتھ دھو بیٹھتا ہے تو پھر اس نعمت کو تقدیر کی نیرنگیوں، ہجرتوں، فرقتوں، فاصلوں، آندھیوں، گہرے بادلوں، رم جھم بارشوں، ان جانے راستوں، پھولوں، خوشبوؤں، پرانی تحریروں، خطوں اور یادوں میں ڈھونڈتا پھرتا ہے۔ محبت خسارے کی تجارت ہے جس کا ہر کس و ناکس متحمل نہیں ہوسکتا۔ محبت حادثہ ہے جس میں چناؤ نہیں ہوتا اور اس کے دام متعین نہیں ہوتے۔ محبت ایک دائمی تعلق ہے، یہ کھیل، تماشا اور کچا دھاگا نہیں ہے۔ محبت زندگی نبھانے کا نام ہے۔
حمیدہ شاہین کی خواہش ہے کہ دھرتی کی ہر عورت کے پاس زبان کے ساتھ ساتھ قلم بھی ہو ناچاہیے جس کی برکت سے وہ خود کو محفوظ تصور کر سکیں۔ ان کے مطابق جب ہواؤں کو دیا کی فکر نہیں ہوتی تو دیا کو ہواؤں سے لڑنا پڑتا ہے۔
المختصر، حمیدہ کو مرد کی ذات سے کوئی وجودی اختلاف نہیں، وہ صرف اپنی حیثیت، مقام اور اہمیت معلوم کرنا چاہتی ہے:
آج مرے ہاتھوں پر اپنی قسمت لکھ دے
دونوں کی تقدیر میں کیاہے نسبت، لکھ دے
اپنے خانے میں لکھ لے دولت، شہرت
میرے نام کے ہر صفحے پر عزت لکھ دے
میری حیثیت کو مان بھی، منوا بھی
کہاں کہاں، کیا ہے میری اہمیت، لکھ دے
میرے ہر خلیے پر تیرا حق تسلیم
اپنی ذات کو بھی میری ملکیت لکھ دے
اپنے تاج و تخت کا قصہ لکھ، لیکن
کس مسند پر متمکن ہے عورت، لکھ دے
رُوپ، جوانی اور بدن کی باتیں چھوڑ
اپنے اور میرے رشتے کی عظمت لکھ دے