***مذاق ہی مذاق میں***
میں ایک پلاسٹک کی کرسی پر سڑک کے کنارے بیٹھا اُس وقت کو کوس رہا تھا جب میں نے اپنے ایک بینکر دوست کو انویسٹمنٹ کی غرض سے گزشتہ سال کچھ رقم دی تھی اور اس نے مجھے بتائے بغیر میری وہ معمولی سی رقم گندم کی بوائی میں انویسٹ کردی تھی۔ ستمبر میں انویسٹ کی گئی رقم سے مجھے پوری امید تھی کہ مجھے بینک کے شرح سود سے کہیں زیادہ منافع ہوگا اور اس انویسٹمنٹ سے جو بینک سے پانچ گنا زیادہ منافع ملے گا، وہ انشاء اللہ حق حلال کا ہوگا۔
۲۹/ اپریل کو میں میرے ‘بین کر’دوست نے مجھے فون پرخوش خبری سنائی کہ گندم کی فصل الحمدللہ اچھی ہوئی ہے اور وہ مجھے میرے حصے کامنافع بوریوں میں بھربھر کر بھیج رہا ہے۔اس نے مجھے بتایا کہ وہ مجھے بیس بوریاں بھیجے گا۔ میں نے ابھی سوال ہی کیا تھا کہ وہ مجھے کیش رقم کیوں بھیج رہا ہے، بینک اکاؤنٹ میں کیوں نہیں؟ لیکن فون کٹ گیا۔
شاید منافع کے نوٹوں سے بھری بوریوں کا خمارِ گندم مجھے کچھ زیادہ ہی چڑھ گیا تھا، اسی لیے میں نے منافع کے نوٹوں کی بوریاں موصول ہونے سے قبل ایک خطیر رقم کچھ ثواب کی نیت سے اور کچھ ‘شو’ مارنے کی نیت سے بھی اپنے میکہ جاتی اور سسرالی رشتہ داروں پر صبح کو گرم گرم حلوہ پوری کی دعوت میں، دوپہر کو بریانی کو دعوت میں اور رات کو تکے کباب کی دعوت میں اُڑا دی۔ تین روز بعد مئی کی دو تاریخ کو جب ملازمین کو تنخواہ ملتی ہے، مجھے اپنی “زمینوں” سے بیس عدد بھاری بوریاں موصول ہوئیں اور ایک خط بھی موصول ہوا جس میں مکتوب الیہ کے نام ایک جنرل پیغام لکھا تھا: گندم کا منافع گندم ہی کی صورت میں پیش خدمت ہے۔
میں جو نوٹوں کی بوری موصول ہونے کا منتظر تھا، گندم کی بیس بوریاں دیکھ کر بہت تلملایا۔ دوست کو کئی بار فون ملایا لیکن اس کا فون مسلسل بند تھا۔ میں نے یقین کرلیا کہ میرے ساتھ واقعی فراڈ ہوا ہے۔ اچانک شیطان میرے سامنے آگیا اور کہنے لگا: فراڈ کیسا؟ کیا تمہیں بوریاں بھر بھر کے گندم نہیں ملیں؟ میں نے ابلیس سے عرض کی کہ میں تو نوٹوں کی صورت میں منافع کا منتظر تھا،یہ تو غلط بات ہے نا۔ اس پر ابلیس نے اپنے علم سے میرے سامنے معاہدۂ گندم کی سافٹ کاپی لہرائی جس میں کہیں نہیں لکھا تھا کہ منافع ضرور نوٹوں کی صورت میں ہی حامل ہذا کو ادا کرے گا۔
اب کیا کروں؟ میں نے ابلیس سے مشورہ مانگا۔ ابلیس نے مجھے اپنے جدید علم سے میرے ہی گھر کے دروازے کا منظر دکھایا جہاں میرے عزیز رشتہ دار میرے دروازے سے گندم کی بوریاں اپنی پیٹھ پر لادے مفت لے جارہے تھے۔ میری بوڑھی والدہ المعروف بے بے انھیں پورے خلوص سے گندم کی ایک بوری فی فیملی مفت عنایت فرمارہی تھیں۔ والدین کے حقوق کے باعث میں انھیں یہ نہ کہہ سکا کہ بے بے! یہ بوریاں ہی تو ساری کمائی ہیں۔ منافع میں نوٹ نہیں ملنے۔ ابلیس بولا: جتنی دیر میں تم دروازے تک پہنچو گے، اتنی دیر میں سارے رشتہ دار ایک بوری فی خاندان لے کر تمہیں دعائیں دیتے ہوئے جاچکے ہوں گے اور تمہارے لیے صرف ایک بوری گندم بچی ہوگی۔ میں نے ابلیس کے بیان کی صداقت معلوم کرنے کے لیے دروازے کی طرف دوڑ لگادی۔ سیڑھیاں پھلانگتا ہوا دروازے تک پہنچا تو آخری انیسواں رشتہ دار بوری لادے جاچکا تھا اور واقعی صرف ایک گندم کی بوری دروازے پر میری منتظر تھی۔ بے بے یعنی میری والدہ بھی اندر آرام کرنے جاچکی تھیں۔
میں نے اپنے اس عظیم نقصان پر ہار مان لی اور وہ اکلوتی بوری اپنی پیٹھ پر لادکر باہر نکل آیا۔ تھوڑی دور چلا تو ایک دکان کے باہر رکھی ہوئی پلاسٹک کی کرسی پر بیٹھ گیا اور بوری سامنے رکھ لی۔ ابلیس سے میری پریشانی دیکھی نہ گئی ۔ وہ میرے سامنے آیا اورغڑپ سے میرے دماغ میں داخل ہوگیا۔ دل تو خدا کا گھر ہوتا ہے، اس میں شیطان نہیں آسکتا۔ یہ میرا سچا ایمان ہے۔
اچانک بوم بوم مشتاق فالودے والا اپنا ٹھیلا لیے میرے پاس سے گزرا۔ میں نے آواز لگائی، مشتاق۔ وہ سمجھا کہ میں اس سے فالودہ مانگ رہا ہوں۔ کہنے لگا، جناب فالودہ تو سارا ہاتھوں ہاتھ بک گیا ہے۔ ٹھیلا خالی ہے۔ میں نے اس سے درخواست کی کہ اپنا ٹھیلا مجھے ادھار دے دے۔ اس نے خوشی خوشی مجھے اپنا ٹھیلا عارضی طور پر دے دیا۔ طے یہ ہوا کہ ٹھیلے کا ٹائر پنکچر ہونے کی صورت میں ٹھیلے کی مینٹیننس کی ذمہ داری میری ہوگی اور میں رات تک ضرور اس کے گھر کے باہر ٹھیلا کھڑا کردوں گا۔
میں نے اپنی اکلوتی گندم کی بوری ٹھیلے پر رکھی اور ایک سفید کپڑے پر گندم کے دانے گراتا گیا۔ آدھی بوری جب خالی ہوگئی تو میں نے اس کا منہ بند کیا اور ٹھیلا لے کر آگے بڑھا۔میں ایک ایسے علاقے میں جاپہنچا جہاں دفاتر واقع ہیں۔ وہاں ملازمین شاید اپنی کیش تنخواہ لے کر نکل رہے تھے اس لیے خاصا رش تھا۔ میرے پاس سے میرا سٹوڈنٹ رفیق گزرا۔ رفیق کو یورپ کا اصلی ویزہ ملا تھا اور وہ مجھ سے ہی ملنے آرہا تھا۔ اس کے ہاتھ میں اس کا پاسپورٹ تھا جس پر ویزا لگا ہوا تھا۔ اس نے مجھے ٹھیلے پر گندم لیے دیکھا تو حیران ہوا۔ میں نے رفیق سے درخواست کی کہ وہ میرے ساتھ تھوڑی دور پیدل چلے لیکن مجھ سے کوئی سوال نہ کرے۔ کہنے لگا کہ سر، ڈونٹ وَری۔ آئی وِل بی پیشنٹ۔ میں نے اسے شاباش دی اور کہا کہ آج تم ضرور یورپ جاکر دولت کمانا سیکھ جاؤ گے۔
میں آگےبڑھا اور آوازیں لگانے لگا: جنتی گندم دس ہزار روپے پاؤ۔ جہنمی گندم دس روپے پاؤ۔ تھوڑی دیر میں لوگ میرے دام میں آگئے۔ کہنے لگے کہ یہ جنتی گندم اور جہنمی گندم کا کیا ماجرا ہے؟ میں نے بتایا کہ اس سفید کپڑے کے اوپر جو گندم موجود ہے، وہ جنتی گندم ہے۔ ان گندم کے دانوں کے آباؤ اجداد کا تعلق اُس تاریخی گندم سے ہے جسے کھا کر ہمارے آباؤ اجداد کو جنت سے نکالا گیا تھا۔ یہ جنتی گندم دس ہزار روپے پاؤ ہے۔ یہ میرا طالب علم مشتاق ہے۔ اس نے یہ جنتی گندم ایک پاؤ کھائی اور اس کا فوراً ہی یورپ کا ویزہ لگ گیا۔ اب یہ میرے جنت جیسے وطن کو چھوڑ کر جارہا ہے۔
مجھے اس روز معلوم ہوا کہ سیکڑوں نوجوان آج بھی جنت سے نکلنے کے لیے بیتاب تھے۔ جنت سے نکلنے کی فطرت شاید ہماری گھٹی میں پڑ گئی ہے۔ انھوں نے رفیق کا پاسپورٹ دیکھا اور اس کا یورپ کاویزہ اپنے سمارٹ فون سے سکین کیا۔ تھوڑی دیر بعد مجمع میں سے ایک نوجوان کی آواز بلند ہوئی: ویزہ بالکل اصلی ہے۔ پھر تومیرے ٹھیلے کے آگے نوجوانوں کی قطار لگ گئی۔ ہر نوجوان اپنے ہاتھ میں دس ہزار وپے پکڑے اس بات کا خواہش مند تھا کہ وہ مجھ سے ایک پاؤ جنتی گندم خرید کر کھائے اور اس جنت سے نکل جائے۔ بے چارے نوجوان یہ بھول گئے تھے کہ آدم کو جنت سے نکالنے کے لیے خدا جو گندم پیدا کی تھی، وہ آدم کے لیے مفت تھی۔ اسی لیے مفت کی چیز کبھی نہیں کھانی چاہیے۔
مشتاق کے ٹھیلے پر موجود سفید کپڑے پر رکھی ہوئی بیس کلو جنتی گندم جلد ہی پوری کی پوری مبلغ آٹھ لاکھ روپے کیش میں بک گئی جبکہ بوری میں رکھی جہنمی گندم کاایک دانہ بھی فروخت نہ ہوا۔ شاید جہنمی گندم کھاکر کوئی شخص جہنم سے نکلنا نہیں چاہتا تھا۔ مجھے خوشی ہوئی کہ وطن عزیز کو ہر نوجوان نے جنت قرار دیا اور یہاں سے نکلنے کے لیے صرف جنتی گندم کھانے کی خواہش دل میں رکھی تھی۔
میں نے رفیق کا تہ دل سے شکریہ ادا کیا۔ وہ میرے دماغ سے یورپ جاکر دولت کمانے کا نسخہ معلوم کرکے شکریہ کہہ کر چلا گیا۔ آٹھ لاکھ روپوں کی صورت میں مجھے توقع سے زیادہ منافع ہوگیا تھا۔میں نے مشتاق کا ٹھیلا اس کے گھر کے باہر کھڑا کیا اور گندم کی ادھ بھری بوری جو جہنمی گندم سے بھری ہوئی تھی، اپنی پیٹھ پر لادے گھر پہنچا۔ آٹھ لاکھ روپے کیش بوری کے اندر ہی موجود تھا جو میں نےاپنے دکھ سکھ کی ساتھیاپنی بیوی کے ہاتھ میں رکھ دیا۔ وہ حیران بھی ہوئی اور خوش بھی۔خدا کا شکر ادا کرنے لگی۔پھر بے بے کے پاؤں دبانے آیا اور اس سے کہا: بے بے! یہ آدھی بوری بچ گئی ہے۔ یہ بھی رشتہ داروں میں ثواب کی نیت سے بانٹ دینا۔ بے بے نے کہا: بیٹا یہ تو بہو کے لیے رکھ دے۔ کہہ رہی تھی کہ میرے اور میرے بچوں کے حصے تو اپنی زمینوں کی گندم کا ایک دانہ بھی نہیں آیا۔ ہمارے لیے تو بے بے نے گھر کو جہنم بنا دیا ہے۔ مجھے ایسا لگا کہ ابلیس میرے دماغ سے نکل گیا ہو۔ میرے دل میں خوف خدا پیدا ہوا اور میں نے بے بے سے کہا: بے بے! اس آدھی بوری گندم کو غریبوں میں ہی بانٹ دینا۔میرے بیوی بچوں کو نہیں۔ اگر کسی کو یہ گھر جہنم لگتا ہے تو جہنم ہی سہی(بھئی اب میں اپنی بیوی اور بچوں کو یہ جہنمی گندم کھلا کر اس جہنم سے نکلنے کا رسک تو نہیں لے سکتا تھا)۔بے بے ! میرا گھر میری جنت ہے ( خدا کا شکر ہے کہ میرے پاس جنتی گندم کا بھی ایک دانہ باقی نہیں بچا تھا)۔ بے بے مجھے دعائیں دینے لگیں۔
محمدذیشان اختر کی دیگر تحریریں
عنوان : سبزی فروشی اور دیگر فروشیاں
عنوان : نظامی گنجوی: ایرانی سماجی روایات سے بغاوت کی قدیم آذربائیجانی مثال
عنوان : مسدس کشمیر
عنوان : کینسر کا ایک منفرد علاج: ایکس فیکٹر (X-Factor)
عنوان : ہندی سے اردو تک: ایک سماجی و سیاسی تاریخ
عنوان : فراست، تنظیم اور پرخلوص معاونت سے مرصع ایک منفرد پاکستانی تعلیمی راہنما