جشن سال نو

یہ تحریر 30 مرتبہ دیکھی گئی

۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بہت سی روشنی ہے
آرزو کی ساعتوں کا دل دھڑکتا ہے
افق سے پار مشرق کی زمینوں پر نمودِسحر کے اعلان ہیں
اور جشن برپا ہے
دعائیں مانگتے، بہکے ہوئے ارمان کے سینے
فضا میں روشنی،
آتش فشاری کے مناظر میں
نئی دنیا کے تٹ سے پھر سفر آغاز ہوتا ہے۔
سفر جاری رہے گا
جشن مشرق سے سوادِ زندگی کے غرب تک محوِ سفر ہے
ایک شب اور، پھر یہاں کس کو خبر ہے
یہ ستارے آنسووں میں کب ڈھلیں
مشرق سے دولت اور خوشیوں کے سفینے چل پڑے ہیں
جانبِ مغرب۔۔۔
مگر مغرب میں پہنچا دن پلٹ کر ہی نہیں آتا
ستارے رات کے مخبر
محض قسمت بتاتے دشمنوں کی ہمنوائی میں برابر مسکراتے ہیں
مسافر تھکتے جاتے ہیں
ابھی تو رات ہے
دن کب چڑھے گا۔؟
وہ دن، جس کی بشارت زندگی کا سُرمئی سچ ہے۔۔۔۔۔۔