تنہائی کے نام خط

یہ تحریر 54 مرتبہ دیکھی گئی

سنو میری کھوئی ہوئی ہم سفر، تم اب جہاں کہیں بھی ہو، اداسیاں سدا تمہارا مقدر رہیں اور جمگھٹے تم سے کوسوں دور۔ کبھی وہ وقت تھا جب میں تم سے بے انتہا محبت کیا کرتا تھا۔ شاید محبت تمہاری دشمن ہے مگر مجھے یہ معلوم نہ تھا۔ اور شاید تیری میری جدائی کا سبب بھی یہی کمبخت محبت ہو۔ مجھے معلوم نہیں کہ میں اب بھی تم سے ویسی ہی محبت کرتا ہوں یا نہیں مگر اتنا کہہ سکتا ہوں کہ تم مجھے ہر چیز سے زیادہ عزیر ہو۔ تمہیں تو یاد ہو گا کہ ہم نے کئی اداس لمحے اکٹھے گزارے اور کئی بوجھل شامیں ساتھ بِتائیں۔ ہم راتوں کی تاریکی میں ہم آغوش رہے اور شام کے سائے میں ہاتھوں میں ہاتھ ڈالے، ایک دوسرے کے لمس کا ذائقہ محسوس کیا۔
جب سے تم سے بچھڑا ہوں دھند چھٹ چکی ہے، چراغ جل چکے ہیں اور چار سو جگنو چمکتے پھرتے ہیں۔ مگر مجھے اسی کہر کی یاد ستاتی رہتی ہے جس کا مزا تمہاری آغوش میں ہی ممکن تھا۔
جب سے تم مجھ سے بچھڑی ہو، تب سے میری زندگی میں رونقوں کا ڈیرا ہے اور ہجوم کا تماشا میرے چاروں اور ہر وقت ہوتا رہتا ہے۔ خود کلامی کی مٹھاس بھولتا جا رہا ہوں اور تمہیں شدت سے یاد کرتا ہوں اور ہر سانس تنہائی تنہائی کا ترانہ الاپتی ہے۔
تمہیں یاد ہے کہ ایک دن تم نے کہا تھا کہ تمہیں سمندروں کا سکوت بڑا پسند ہے اور تم چاہتی ہو کہ ایسی کشتی میں سمندروں کی وسعت میں کہیں کھو جاؤں جہاں کوئی دوسرا نہ ہو۔ فقط سمندر کی خامشی ہو اور کشتی تیرتی چلی جائے۔۔۔ تم شاید کسی ایسے ہی سمندر کی وسعت میں کھو گئی ہو جہاں تک میری رسائی نہیں ہو پا رہی۔
تم کیا بچھڑی، میری زندگی دنیا کے ہنگاموں میں پھنس گئی ہے۔ وہ بھی کیا غضب اداس دن تھے جب تم میری زندگی کا واحد سہارا تھی اور میں تمہیں خود پر طاری کیے میٹھی نیند سوتا تھا۔ مگر اب کفِ افسوس ملنے کے علاؤہ کوئی چارہ نہیں۔ میں دنیا کی رنگینیوں میں گھل رہا ہوں اور آہستہ آہستہ اپنی دنیا، وہی تمہاری میری کائنات، کہیں گم ہو رہی ہے۔ اس سے پہلے کہ میں اپنا اکیلا پن کھو بیٹھوں، واپس آ جاؤ۔
فقط تمہار
علی حسن اُویس