A poem dedicated to the “half-widows”
and all those women in the world who’s lovers were/are the victims of violence; be it the forced disappearances, wars, or the social violence!
“تم وقت سے پہلے ہی مار دیے جاؤ گے”
کورے کاغذ پر
تخلیقی روشنائی سے گندھے
ہاتھ کے تراشیدہ نقش
ایسے لگتے ہیں
جیسے کبھی تم نے
جسم کی جبلی خواہش میں ڈوب کر
اسکی روح کے کواڑوں پر
اپنی ان کہی محبت کے حرف
کاڑھنا چاہے تھے
تم نے چاہا تھا
تمہاری آبی آنکھوں میں ابھرتی لہروں سے ٹکرا کر
اسکے ارغوانی گھاگھرے کی سلوٹیں
تمہارے ہاتھوں کےریشمی لمس سے یوں نکل جائیں
جیسے بند مٹھی سے ریت پھسل جاتی ہے
تمہارے ادھ کھلے ہونٹ
اسکے بدن کے ہر ان چھوئے خم کو ماپنا چاہتے تھے
تمہاری زرد انگلیاں اسکے چھلے دار بالوں میں
سانپ بن رینگنا چاہتی تھیں
تمہاری بانہوں نے
انگور کی جنگلی بیلوں کی طرح
اسے خود میں الجھا کر بھینچنا چاہا تھا
تم نے چاہا تھا
تمہاری سرد آہیں
اسکے پہیلی نما جسم کی
کال کوٹھڑیوں میں
کسی ان سنے بھیڑیے کی
بازگشت بن کر گونجیں
وحشت کی صدا
پورن ماشی کی ندا بن کر گونجیں
تم نے چاہا تھا
وہ آتش عشق سے لرزاں
تمہارے سینے پہ ایک روشن ستارہ بن کر پھوٹے
اور تمہاری اکھڑتی گرم سانسوں کی لے پر
وہ جوگ میں گھلتی رقاصہ بن کر جھومے
کورے کاغذ پر
تخلیقی روشنائی سے گندھے
ہاتھ کے تراشیدہ نقش دیکھ کر
وہ ٓاج سوچتی ہو گی
کیا تم کبھی ایسا کر پاؤ گے؟
نہیں!
تم وقت سے پہلے ہی مار دیے جاؤ گے