ترے لباس پے چمکا جو میری جیب کا پھول
ردائے شعر پے کھلنے لگا شکیب کا پھول
وہاں فریب نے دریا اداس کر ڈالا
یہاں سراب اگلنے لگا وسیب کا پھول
کسی کا رنگ، کسی کی مہک، کسی کا چلن
تھما دیا تھا کسی نے مجھے فریب کا پھول
کوئی کراہ نہ آنسو نہ گریہ و زاری
وہ شاخِ ہجر پے شرما گیا تھا سیب کا پھول
فراغِ دشت پے بادل کا زخم اڑنے لگا
یا آسمان اگلنے لگا نشیب کا پھول