بیدل عظیم آبادی

یہ تحریر 139 مرتبہ دیکھی گئی

بیدل عظیم آبادی

(پروفیسر لطف الرحمن کی یاد میں)

حامد حسن قادری نے بیدل کی شاعری پر کتاب لکھنے کا جو منصوبہ بنایا تھا،یہ کتاب دراصل اسی کا خاکہ ہے۔حامد حسن قادری کے بیٹے ڈاکٹر خالد حسن قادری نے ان تحریروں کو یکجا کر کے کتابی صورت میں شائع کر دیا ہے۔اس سلسلے میں انہوں نے بنیادی معلومات بھی فراہم کی ہیں۔وہ لکھتے ہیں۔
“حضرت والد صاحب مولانا مولوی حامد حسن قادری کو بیدل کی شاعری سے بہت دلچسپی تھی۔انہوں نے بیدل کی غزلوں کا انتخاب کیا۔بعض اشعار کی تشریح کی اور نثری تحریروں میں جو حالات و کوائف منتشر تھے انہیں انتخاب کر کے ترجمہ کیا۔
مفصل،مرتب باضابطہ کتاب جیسی بیدل پر وہ لکھ سکتے تھے نہ ہو سکی۔لیکن جو کچھ بھی انہوں نے لکھ دیا ہے وہ بڑی بڑی صخیم کتابوں پر بھاری ہے وہ سب تحریریں جمع کر کے شائع کی جاتی ہیں”۔
خالد حسن قادری کی کوششوں سے حامد حسن قادری کے یہ بکھرے ہوئے بلکہ گمشدہ اوراق شائع ہو سکے۔اس کتاب میں خالد حسن قادری نے وہ خاکہ بھی شامل کر دیا ہے جو بیدل پر پی ایچ ڈی کے سلسلے میں والد محترم کے مشورے پر انہوں نے بنایا تھا۔لیکن وہ بیدل پر پی ایچ ڈی کا مقالہ نہیں لکھ سکے۔انہوں نے وہ حالات بھی درج کیے ہیں جو بیدل پر پی ایچ ڈی کی راہ میں رکاوٹ بنے۔ انہیں حسرت موہانی کی شاعری پر پی ایچ ڈی کا مقالہ مکمل کرنا پڑا۔کتاب کے اخیر میں پی ایچ ڈی کا خاکہ اتنا تفصیلی ہے کہ یہ اس بات کا منتظر ہے کہ کوئی پی ایچ ڈی کے مقالے کے لیے اسے استعمال کرے۔یہ خاکہ بھی حامد حسن قادری کی بیدل میں ان کی گہری دلچسپی کا اظہار ہے۔خالد حسن قادری نے پیش لفظ میں ییدل کی مشکل پسندی اور بیدل کی شاعری سے شبلی کی شکایت۔کی جانب بھی اشارہ کیا ہے ۔خالد حسن قادری کتاب کے پیش لفظ میں ییدل کی مشکل پسندی اور بیدل کی شاعری سے شبلی کو جو شکایت تھی اس جانب بھی اشارہ گیا ہے۔
بیدل کی غزلوں کا جو انتخاب پیش کیا گیا ہے اس سے پتہ چلتا ہے کہ مولانا حامد حسن قادری نے کلام بیدل کو اپنے ذوق کی روشنی میں بھی دیکھا ہے۔شاعری کا ایسا انتخاب جو شاعر کے تمام اسالیب کا احاطہ کر لے،اس کی اہمیت اپنی جگہ ہے لیکن کوئی ایک ایسا انتخاب بھی ہو سکتا ہے جو شاعر کے غالب رجحان کی نمائندگی کرتا ہو۔جہاں انتخاب ختم ہوتا ہے اس کے نیچے یہ عبارت درج ہے۔
“تمام شد انتخاب غزلیات بیدل کہ در کلیات او شامل بور۔نقل ایں انتخاب غالباً در 1944 عیسوی،آغاز کردہ بودم۔تقریبا چار سال نقلش نہ تمام ماند امروز 12 مارچ 1949 عیسوی شنبہ۔”
اگلے صفحے سے ایک اور انتخاب شروع ہوتا ہے جس کے ابتدائی دو شعر ہیں۔
بخیال چشم کے می زند قدح جنوں دل تنگ ما
کہ ہزار میکدہ می دود برکاب گردش رنگ ما
غبار بیدل ناتواں دل نازکت نشود گراں
کہ رود زیاد تو خودبخود چو نفس ز آئینہ زنگ ما
اس کے بعد بیدل کی ایک مشہور غزل ہے جس کا مطلع اجتماعی حافضہ کا حصہ بن گیا ہے ۔
ستم ست گر ہوست کشد کہ بسیر سرو و سمن درآ
تو ز غنچہ کم نہ دمیدہ در دل کشا بچمن درآ
حامد حسن قادری نے بیدل کی شاعری اور نثر کی روشنی میں بیدل کے افکار اور احوال کو دیکھنے کی کوشش کی ہے۔لیکن یہ بیدل کا سوانحی مطالعہ نہیں ہے۔بیدل کی وہ بصیرت جو خیال اور دور اذکار خیال سے تحریک پا کر وجود میں آئی ہے،اس کی طرف اشارے کیے گئے ہیں۔جسے دور اذکار خیال کہا جاتا ہے،وہ بیدل کے یہاں معمول کا عمل معلوم ہوتا ہے۔گویا زندگی اور زمانے کے بارے میں بیدل کچھ اسی طرح غور کر سکتے تھے۔بیدل نے یہ بھی بتایا کہ خیال جو عام زندگی اور اس کے تجربے سے دور دکھائی دیتا ہے وہ دراصل تجربے ہی کی ایک صورت ہے۔یہ صورت جس ذہن کا تقاضا کرتی ہے وہ ہر شخص کا مقدر نہیں۔مابعدالطبیات بھی ایک طرح کی نہیں ہوتی۔سب کے لیے ایک ہی اصطلاح کو استعمال کر کے مشکل شاعری اور معنی آفریں شاعری کہ فرق کو مٹا دیا جاتا ہے۔مشکل پسندی معنی آفرینی کا ضروری نہیں کہ وسیلہ بھی ہو۔حامد حسن قادری نے انتخاب میں صاف و سادہ غزل کا عنوان بھی قائم کیا ہے۔انہیں اس کا موقع نہیں ملا کہ وہ سادہ اور صاف غزل کے بارے میں اظہار خیال کر سکتے۔ورنہ تو ایک دلچسپ مطالعے کا پہلو تھا۔صاف اور سادہ اشعار دیکھتے دیکھتے کتنے مشکل اور پیچیدہ معلوم ہوتے ہیں۔پھر بھی حامد حسن قادری نے کوشش کی ہے کہ بیدل کا وہ اسلوب بھی سامنے ا جائے جس سے لوگ کم کم آشنا ہیں۔ بیدل کے ایک شعر کے بارے میں حامد حسن قادری لکھتے ہیں۔
“ہمہ جاست شوق طرب کمیں زوداع غنچہ گل آفریں
تو اگر زخود روی ایں چنیں بتو از تو خوب ترے رسد
شوق کو طرب حاصل کرنے کے مواقع ہر جگہ حاصل ہیں۔دیکھو غنچہ اپنی خودی کو چھوڑتا ہے۔حالت غنچگی سے نکلتا ہے تو اس کو گل حاصل ہو جاتا ہے۔تم بھی اسی طرح اپنی خودی اور موجودہ حالت کو ترک کرو گے تو تم سے خوب تر ہستی تم کو مل جائے گی۔دیوان میں بھی غنچہ و گل کی اس تشبیہ کو دوسرے مضمون میں لکھا ہے۔
دوری دامن وصل ست بخود پیچیدن
غنچہ گر واشوداز خویش گلش در چنگ است
افسردگی و بے دلی کے خلاف صدائے احتجاج بلند کرتے ہیں اور کس قدر شورانگیز آہنگ کے ساتھ”
یہ سمجھا جا سکتا ہے کہ بیدل نے فطرت سے جو نکات دریافت کیے ہیں، مخصوص ذہن ہی ان کا متحمل ہو سکتا تھا۔موضوع چاہے تصوف کا ہو یا کچھ اور بات تو نازک خیالی اور کسی ایسی دنیا کو مسخر کرنے کی ہے جہاں اس سے پہلے خیال کی سطح پر کوئی گیا نہیں تھا۔تشریح اور تجزیے سے پہلے حامد حسن قادری نے بیدل کی زندگی اور تصنیفات کے تعلق سے صرف ایک صفحہ لکھا ہے مگر کئی اہم مسائل یہاں سمٹ آئے ہیں۔وہ لکھتے ہیں۔

“بیدل نے شہزادہ محمد اعظم شاہ ابن شہنشاہ عالمگیر کے مدح میں قصیدہ لکھنے سے بچنے کے لیے شہزادے کی ملازمت سے استعفی دے دیا تھا۔پھر گھر بیٹھے رہے اور دنیا کے لیے گھر سے نہ نکلے۔1721 عیسوی میں انتقال کیا۔دنیا سازی میں گرفتار رہتے تو شاید نکات چہار عنصر ،رقعات اور دیوان کے جواہر دنیا کو نہ مل سکتے تھے۔ان میں چار عنصر سب سے ضخیم ہے۔300 صفحات کے قریب اصحاب دل و دیں سے اپنے استفادات اور مشاہدات و حالات لکھے ہیں۔نکات بہت مختصر ہیں صرف 67 صفحے۔روحانی،علمی و اخلاقی نکتے اور اشارے بیان کیے ہیں۔ان دونوں کتابوں میں اس کثرت سے غزلیں،مثنویاں،نظمیں،قطعات رباعیاں شامل ہیں کہ نثر سے کم نظم کا حصہ نہیں۔رقعات یہ 150 صفحے ہوں گے۔بہت دلچسپ ہیں۔اپنے زمانے کے امراء واحباب کو رقعے لکھے ہیں۔ جن سے اس دور کی تاریخ اور خود مرزا بے دل کے حالات پر روشنی پڑتی ہے۔ان میں بھی اشعار کی تعداد کافی ہے۔دیوان غزلیات مختصر ہے۔75 صفحے کا لیکن دوسری تالیفات کی غزلیں اور نظم ملا کر دیوان کی ضخامت دو چند سے زیادہ ہو سکتی ہے۔دیوان میں سب غزلیں چھوٹی اور درمیانی بحروں کی ہیں۔طویل بحروں کی سب غزلیں نکات میں ہیں۔نکات اور چہار عنصر کی غزلیں نثر کے درمیان میں آتی ہیں۔اس لیے وہاں کے موضوعات کے مناسب ہیں۔اور اسی لیے ان میں تصوف کا رنگ بہت گہرا ہے۔دیوان کی غزلوں میں ہر نو کے اشعار ہیں۔”

کلام بیدل کی ترتیب اور تدوین کے سلسلے میں مندرجہ بالا اقتباس کی ایک خاص اہمیت ہے۔میرے پاس دیوان بیدل کا دو جلدوں میں جو نسخہ ہے وہ تہران سے شائع ہوا ہے۔اس میں کلام کی ترتیب اور تلاش کے تعلق سے کوئی تحریر موجود نہیں۔بیدل کی نثر میں شاعری کا زیادہ پایا جانا،اس بات کی علامت ہے کہ ان کے پیش نظر موضوع بہت اہم تھا۔نثر اور نظم دونوں اس کے طابع تھے۔سوال یہ ہے کہ بیدل کی جو کلیات اس وقت موجود ہے اس میں کتنا کلام کس کتاب کا ہے اور وہ کلام جو مختلف تذکروں میں بکھرا ہوا تھا اسے کیا یکجا کیا جا سکا۔اس سلسلے میں تاریخی ترتیب کا مسئلہ بھی زیر بحث آ سکتا ہے۔عجیب اتفاق ہے کہ خواجہ عباد اللہ اختر کی کتاب بیدل 1952 میں شائع ہوئی،مولانا حامدحسن قادری کی مختصر سی کتاب 1951 میں تیار ہوئی۔خواجہ عباداللہ پیش لفظ میں لکھتے ہیں۔
“کلیات بیدل میں مطبوعہ کلام ہی ملتا ہے۔غیر مطبوعہ کلام کا حوالہ تذکروں میں ہے۔ممکن ہے کہ کسی کے پاس کسی جزو کا مکمل نسخہ بھی ہو۔”
مولانا حامد حسن قادری نے بعد والوں کے لیے کلیات بیدل کے تعلق سے اطلاعات فراہم کر دی تھیں۔کلیات بیدل کی موجودہ صورت بھی مطالعہ بیدل کا ایک اہم حوالہ ہے۔
پروفیسر لطف الرحمن بیدل کے حافظ تھے۔اردو میں اکا دکا ایسے پروفیسر ہوں گے جنہیں فارسی زبان و ادب پر اس قدر عبور حاصل ہو۔ بیدل میں میری دلچسپی کا سبب پروفیسر لطف الرحمن ہیں۔وہ جلد رخصت ہو گئے۔بیدل نے اپنے کلام کا
ایک انتخاب بھی کیا تھا۔ پروفیسر لطف الرحمان نے خانقاہ رحمانیہ (مونگیر )کی لائبریری میں اس نسخے کو دریافت کر لیا جسے بعد کو پروفیسر شریف حسین قاسمی نے مرتب کر کے شائع کر دیا۔
فارسی کے اسکالر اور میرے دوست پروفیسر اخلاق احمد آہن سے بیدل کے بارے میں گفتگو ہوتی رہتی ہے۔کلیم عاجز نے کہا تھا
ہر چند کوئی نام نہیں میری غزل میں
تیری ہی طرف سب کی نظر جائے ہے پیا رے

سرور الہدی
16 مارچ 2025
دہلی