بوسیدہ سی کتابیں فریاد کر رہی تھیں
اک شور سا بپا تھا
سنتا بھی کوئی کیسے
ساری نئی کتابیں آنکھوں میں آ گئیں تھیں
کیسی چمک دمک تھی
لیکن یہیں کہیں پر اک دھند سی تھی چھائی
کیسی کتابیں تھیں وہ،جن کے وجود میں تھا
تاریخ کا اندھیرا
تاریخ تھی اندھیری ،ساری اشاعتوں کی
اور ان کا کچھ اندھیرا آنکھوں میں آگیا تھا
لیکن یہیں کہیں پر تھا کس قدر اجالا
ساری نئی کتابیں،تقدیر پہ ہیں نازاں
اک بھیڑ ان کی جانب
لیکن یہیں کہیں پر خاموش سی فضا تھی
بوسیدہ کاغذوں میں کیا علم تھا بوسیدہ
بوسیدہ آ گہی تھی بوسیدہ کاغذوں میں
بوسیدہ زندگی تھی بوسیدہ کاغذوں کی
بوسیدہ کاغذوں میں بوسیدہ لفظ بھی ہیں
کچھ حرف بھی ہیں ٹوٹے
دل جیسے ٹوٹتے ہیں
بوسیدہ کاغذوں سے کیسے بنیں کتابیں
بوسیدہ سی کتابوں کا خواب اور کیا ہے
کوئی انہیں اٹھا کر سینے سے تو لگائے
کچھ ان کی دھڑکنیں بھی شامل ہوں دھڑکنوں میں
اک عمر کی مسافت
بوسیدہ سی کتابیں فٹ پاتھ پر پڑی ہیں
اورآنکھ ہے گریزاں
پیرس ،شکا گو ،لندن نیویارک اور ٹورنٹو
بوسیدہ سی کتابوں کی شہریت کا شہرہ کیا ماند پڑ گیا ہے
بوسیدہ سی کتابیں بوسیدہ کاغذوں میں
بوسیدہ کاغذوں کے بوسیدہ لفظ میں ہے
اک زندگی کی خوشبو
خوشبو کا کوئی دکھ تھا
دکھ کا کوئی مداوا
دکھ کی کوئی کہانی
اک زندگی کی دھڑکن
موضوع ہو چاہے کچھ بھی
تاریک سی فضا ہے،اجلی سی زندگی میں
اک دھند سی ہے چھائی
کہتے ہیں ابتدا میں تھا ان کا رنگ روشن
دلی تک آتے آتے رنگ اڑ گیا ہے کتنا
جو رنگ اڑ گیا ہے وہ رنگ بھی ہے میرا
جو رنگ رہ گیا ہے،وہ رنگ بھی ہے میرا
کچھ موت کا ہے قصہ،کچھ عشق کا فسانہ
کچھ ذہن کا اندھیرا،کچھ فکر کا اندھیرا
اک شے ہے ٹوٹتی سی
مشرق ہے نام اس کا یا نام اس کا مغرب ؟
کچھ چھینٹے خون کے بھی جو یاں تک آگئے ہیں
اک شے ہے ٹوٹتی سی
سرور الہدی
ایک اکتوبر 2024
نئی دہلی