کھلاڑی اب کے لایا ہے نئے مہرے نئے پانسے
کہ تا اس بار کھیلے ہند والوں کی رگِ جاں سے
بڑی کاریگری کے ساتھ شاطر نے تراشے ہیں
نئے دھوکے، نئے حیلے، نئے چکمے، نئے جھانسے
ہزاروں تجربوں کے بعد اب یہ بات سیکھی ہے
کسے تھپکے کسے گُھرکے کسے چھوڑے کسے پھانسے
سمجھ میں اب یہ آیا ہے کہ انساں چال بازی میں
کہاں گائے کہاں ناچے کہاں روئے کہاں کھانسے
یہ ٹھانی ہے کہ اب چھپ چھپ کے ہوں گی پیار کی باتیں
کبھی پنڈت مہندر سے کبھی احمد حسن خاں سے
کُھلا ہے اب کہ وہ ہے قاتلِ کامل جو بے خنجر
نظر سے گردنیں کاٹے ادا سے توڑ دے بانسے
انوکھی چال سوجھی ہے کہ تاجِ خسروی دے کر
دلوں کی موڑ دے باگیں سروں کے توڑ دے کانسے
جون 1947
برطانیہ کی نئی چال
یہ تحریر 1026 مرتبہ دیکھی گئی
