بارش کے پردے میں

یہ تحریر 79 مرتبہ دیکھی گئی

ملتان!!!! جو کبھی دھوپ کی تپش اور گرم ہواؤں کا مسکن تھا، آج بادلوں کی گرج اور بارش کی بپھری ہوئی بوندوں کے سامنے خاموش کھڑا تھا۔ آسمان پر گھنے بادل ایسے چھائے ہوئے تھے جیسے کسی قدیم دیومالائی داستان کے ہیرو، جو اپنے غصے کی شدت سے زمین کو تر بتر کر دینے پر آمادہ ہو۔ پانی کی موٹی بوندیں زمین پر ایسے گر رہی تھیں جیسے آسمان اپنے زخموں کا رستا ہوا خون برسا رہا ہو۔

یہ بارش نہیں تھی، بلکہ ایک قیامت کا پیش خیمہ تھی جو ملتان کے ہر گوشے میں پھیل گئی تھی۔ یہ شہر، جو صدیوں سے موسموں کے نشیب و فراز کا گواہ تھا، آج پانی کے اس حملے کے سامنے بے بس ہو گیا تھا۔ گلیوں میں جمع پانی، مکانوں کے اندر گھس چکا تھا اور لوگوں کی زندگیوں کو اپنی گرفت میں لے چکا تھا۔

پرانی بستی کی تنگ گلیوں میں جہاں زندگی ہمیشہ سے ایک جدو جہد کا نام تھی، آج وہی زندگی پانی کی روانی میں معلق نظر آ رہی تھی۔ چھوٹے چھوٹے کچے مکانوں کی دیواریں ریت کی مانند بہہ رہی تھیں۔ ایک بوڑھی عورت مائی سلاماں ، اپنے ٹوٹے ہوئے دروازے کے سامنے کھڑی، پانی میں بہتی اپنی چند بچی کچھی چیزوں کو بے بسی سے دیکھ رہی تھی۔ اس کے چہرے پر وقت کی سلوٹیں اور آنکھوں میں بے چارگی کے سائے گہرے ہو چکے تھے۔

“بیٹا! کچھ نہیں بچا… سب کچھ پانی لے گیا…” اس نے اپنی لرزتی آواز میں کہا۔ اس کی بات سننے والا کوئی نہیں تھا، سوائے اس موسلادھار بہری بارش کے جو اس کی سسکیوں کو اپنی بوندوں کے شور میں دبا رہی تھی۔

دریائے چناب کے کنارے آباد کچے گھروں کی بستیاں مکمل طور پر پانی میں ڈوب چکی تھیں۔ لوگ اپنی جانیں بچانے کے لئے کشتیوں میں سوار ہو رہے تھے، کھیتوں میں گھر بنا کر رہنے والے کسان اپنے مال مویشی لے کر سڑک کنارے خیمہ میں رہنے پر مجبور تھے ۔ چند برتن ، چارپائیاں جن کہ بانہیوں سے بندھی جھولیاں اور ان جھولیوں میں ننگ دھڑنگ معصوم بچے ، جن کا لباس صرف قمیض تھا ، دودھ کے لیے بلک بلک کر رو رہے تھے ۔ کشتیوں میں خیمہ زن خاندان بھی خوف اور نا امیدی کی بوجھل خاموشی کی مکمل تجسیم تھے ۔ بچے اپنی ماؤں کے سینوں سے لپٹے ہوئے تھے، مگر کچھ لا ابالی لڑکے چناب کے لوہے کے بنے پل جو نئے پل کی تعمیر سے آمد و رفت کے لیے بند کر گیا تھا اس پر دوڑ کے مقابلے کر رہے تھے ٹائر چلا کر اپنی بے خوف دنیا میں مگن تھے .ٹائر کا ہر گھومتا چکر انہیں ان دیکھی من موجی زندگی کی طرف لے جا رہا تھا ۔ ٹرین تیزی سے چیختی ، چنگھاڑتی جب لوہے کے پل سے گزرتی تو یہ لڑکے لرزتے پل پر کھڑے ہو کر ٹرین کی سیٹی سے بلند چیختے تو ماحول پر ایک عجیب سی پر اسراریت طاری ہوجاتی جبکہ مرد اپنے گھروں کو دور بے یار مددگار دیکھ کر خاموش آہیں بھر رہے تھے۔ بارش کا یہ سیلاب ان کے دلوں کے سیلاب سے کہیں زیادہ طاقتور تھا۔

شہر کے وسط میں، جہاں زندگی ہمیشہ سے ایک مسلسل دوڑ کا نام تھی، وہاں آج سناٹا تھا۔ بڑے بازار: حسین آگاہی، کالا منڈی ، کینٹ صدر بازار ، گردیزی مارکیٹ ، نشتر روڈ ، رشیدہ آباد مارکیٹ ، قذافی چوک الغرض ہر چھوٹا بڑا بازار تباہی پر ماتم کناں ہے ۔ ۔ ۔۔ جو کبھی زندگی سے لبریز ہوتے تھے، آج ویران تھے۔ دکانوں کے شٹر پانی کے دباؤ سے ٹوٹ چکے تھے، اور اندر موجود مال و متاع بہہ چکا تھا۔ اختر ، جو کپڑوں کی دکان کا مالک تھا، اپنے بھیگے ہوئے کپڑوں کو ہاتھوں میں اٹھائے کھڑا تھا۔ اس کی آنکھوں میں حیرت اور غم کا عجیب سا ملاپ تھا۔

“یہ سب خواب تھے، جو پانی میں بہہ گئے۔” اس نے اپنے دوست سے کہا، جو اسی کی طرح اپنے کاروبار کی تباہی دیکھ رہا تھا۔ دوست نے کچھ نہ کہا، بس ایک لمبی سانس بھری اور خاموشی سے سر جھکا لیا۔

ملتان کے بڑے چوراہوں پر کھڑے اونچے درخت، جنہیں کبھی شہر کا فخر سمجھا جاتا تھا، اب زمین پر اوندھے پڑے تھے، جیسے بارش کی طاقت نے انہیں بھی شکست دے دی ہو۔ بجلی کے کھمبے گر چکے تھے، اور تاروں کی الجھی ہوئی لکیریں بارش کے پانی میں تیر رہی تھیں یہاں تک کہ ایک چوک پر بارش کے پانی میں کرنٹ کی وجہ سے تین اموات بھی ہوچکی تھیں ، زیر زمین چوہے ، سانپ اور دیگر جانور اپنے آپ اور اپنے بچوں کو بچانے کے لیے جا بجا پانی پر تیر کر خوف وہراس کے اس ماحول کو دہشت میں بدل رہے تھے ۔ مسجد میں عصر کے بعد قرآن پڑھنے والے بچے اور بچیاں باآواز بلند قرآت کر رہے تھے برآمدے کی کمزور بلی چھت پر رکے پانی سے مٹی اور اینٹ کے بوجھ کو برداشت نہ کرتے ہوئے گر گئی ، چیخ وپکار کے ساتھ ایک بھگدڑ مچ گئی۔ زخمی حالت میں بچے اپنے گھروں کو بھاگ گئے مگر رابعہ کی کسی کو پرواہ نہ تھی۔ عشاء کے بعد جب اندھیرا گہرا ہونے لگا تو اس کی ماں اور بابا کو تشویش ہوئی کہ وہ ان کی اکلوتی اولاد تھی ، جیسے ہی بارش تھمی دوڑے بھاگے ،پوچھتے پڑھاتے مسجد کے ملبے سے اینٹیں اور مٹی کے نیچے مردہ حالت میں رابعہ ملی تو پورے گاؤں میں کہرام مچ گیا ۔ ہر آنکھ اشک بار تھی ۔ آنسؤں اور بارش کے قطروں کا فرق مٹ چکا تھا ۔ ملتان میں بارش لگتا ہے انتقام پر اتر آئی تھی ہر طرف اندھیرا تھا، اور اس اندھیرے میں لوگوں کے دلوں کی بے چینی اور خوف مزید بڑھ رہا تھا۔

حکومت کی امدادی ٹیمیں شہر کے مختلف حصوں میں پہنچنے کی کوشش کر رہی تھیں، مگر ان کی رفتار پانی کی رفتار سے کہیں کمزور تھی۔ لوگ اپنی مدد آپ کرنے پر مجبور تھے، مگر اس شدید بارش نے ان کے ہاتھ باندھ دیے تھے۔ سڑکیں تباہ ہو چکی تھیں، اور ہر جانب پانی کا سمندر پھیلا ہوا تھا۔

رات کی تاریکی میں، جب بارش نے ذرا دم لیا، تو شہر کے مختلف حصوں سے لوگوں کی سسکیاں اور آہیں سنائی دینے لگیں۔ یہ وہ سسکیاں تھیں جو دیواروں کے اندر مقید تھیں، مگر بارش کی اس شدت نے انہیں باہر نکال دیا تھا۔ ہر گھر میں دکھ کی کہانی تھی، ہر دل میں خوف کا بسیرا تھا۔

ملتان ما ! جو تاریخ میں اولیاء اور صوفیوں کی سرزمین کہلاتا تھا، جہاں ہاتھ کے اشارے سے دریا اپنا رخ موڑ کر ، اپنے پٹ کو کئی کوس دور لے گیا تھا مگر آج اس کے صوفیوں کی دعائیں بھی بارش کے سیلاب کو نہ روک سکیں۔ یہ شہر: جس نے ہزاروں سالوں کی تاریخ دیکھی تھی، آج اپنی تاریخ کا سب سے بھیانک باب لکھ رہا تھا۔ نا امیدی،یاسیت اس قدر حاوی ہوگئ تھی کہ مسجدوں کے لاؤڈ سپیکر گنگ تھے نماز استسقاء کا ہوش نہ تو کسی مولوی کو تھا اور نہ ہی کسی انسان کو ۔ بے بسی کا یہ عالم تھا کہ ٹیلی ویژن پر استغفار کرنے کا کہہ کر اپنی ذمہ داری سے پہلو تہی برتی جا رہی تھی ہر فرد یہ سوچ رہا تھا کہ استغفار ۔ ۔ ۔۔ اور وہ ۔۔ میں ۔ ۔۔۔۔کیوں. ۔ ۔ میں ہی کیوں۔۔ ۔ ۔ ؟؟؟؟؟ ۔

بارش نے تو رکنا تھا، سو رک گئی، مگر لوگوں کے دلوں میں جو زخم چھوڑ گئی، وہ ہمیشہ کے لئے رہنے والے تھے۔ شہر کی گلیوں میں پانی کے نشان رہ جائیں گے، مگر ان نشانوں کے پیچھے چھپی ہوئی کہانیاں ہمیشہ دلوں میں زندہ رہیں گی۔

یہ بارش، جو کبھی زندگی کی علامت تھی، آج ملتان کے باسیوں کے لئے موت کی ایک یادگار بن چکی تھی۔ بارش کے پردے میں چھپی ہوئی تکالیف، ایک ایسی کہانی بن چکی تھی جو وقت کے ساتھ مٹنے والی نہیں تھی۔