اس کمرے میں دو کھڑکیاں سامنے کی طرف ہیں۔ایک کھڑکی تھوڑی بلندی پر دوسری جانب ہے۔ایک دروازہ کمرے کو بیٹھک سے ملاتا ہے۔کبھی اسے بنگلہ کہا جاتا تھا۔بیٹھک کو بنگلہ کہنے کی منطق اس کے سوا اور کیا ہو سکتی ہے کہ جگہ چاہے کتنی ہی کم ہو وہ تنگی کی وسعت بھی ہے۔ اس کمرے کی زمین کی سطح ، بنگلے کی زمین سے کچھ نیچی ہے یا نیچے رہ گئی ہے۔یہ معمولی سی بلندی اور پستی دو چھوٹے سے کمروں تک محدود تھی لیکن اسی سے بات کو طبقاتی کشمکش اور طبقاتی نظام کا سراغ ملا۔امی نے کہا تھا کہ تعمیر کے وقت یہ تمام کمرے ایک ہی طرح سے تعمیر ہوئے اور ان کی زمینیں بھی سطح بھی ایک جیسی تھی۔دھیرے دھیرے ایک کمرے کی زمین کچھ دب سی گئی اور اسے شاید اس کا حوصلہ اس چھت سے ملا تھا جو برسات کے پانیوں سے شراب اور ہوتے ہوتے کچھ زمین سے مکالمہ کرنا چاہتی تھی۔چھت کا وہ حصہ جو دبا دبا سا تھا اسے چھت کے دوسرے حصے سے برابر کرنے کے لیے جو کوششیں ہوئیں وہ چھت کی اولین تعمیر سے ہم آہنگ نہ ہو سکیں۔ ایک بلندی اور پستی چھت کے نیچے کی زمین کے ساتھ ظاہر تھے اور دوسری چھت کے اوپر۔ایک مکان کے اندر کا موسم چھت کے موسم سے کس قدر بیگانہ ہے۔اس کی بیگانگی کا راز دراصل اس آشنائی میں پوشیدہ ہے جسے “ایسی بلندی اور ایسی پستی”کا نام دینا چاہیے. ان دنوں نام دینے کی اتنی خواہش بھی نہیں تھی خواہش تو اب بھی نہیں ہے مگر اب صرف نام سے ہی سب کچھ ہوتا ہے اور وہ بھی اس نام سے جو تبدیل کر دیا گیا ہو۔بیٹھک اور بنگلہ یہ محض دو لفظ نہیں ہیں بلکہ ان سے اس گھر کی ذہنی کشادگی کا اظہار ہوتا ہے جو کبھی کبھی اپنی کشادگی کے ساتھ تھوڑی تنگی کو راہ دیتی تھی جس میں گزرے ہوئے وقت کا غرور شامل تھا۔عظیم آباد اور اس کے مضافات میں گھر سے متصل ملنے یا مل بیٹھنے کی جگہ کو دہلی کی طرح شاید بیٹھک نہیں کہا جاتا تھا۔ممکن ہے کہیں کہا جاتا ہو مجھے ہوش سنبھالتے ہی بیٹھک کا لفظ سنائی دیا۔کبھی کبھی بنگلہ کچھ اس طرح کہا جاتا کہ جیسے کلکتہ سے کوئی آیا ہو،اور وہ آواز دے رہا ہو۔اس گھر میں “صورۃ الخیال”کا ایک نسخہ پہلے سے موجود تھا جس کے بارے میں بعد کو علم ہوا کہ شاد نے بنگلہ کے کسی ناول سے استفادہ کیا ہے۔
چھت اور چھت کے نیچے کی زمین کو کاش ایک ساتھ ایک نظر میں دیکھا جا سکتا.
زمین کی پستی قریب کی بلند ہوتی ہوئی زمین سے پہچانی جاتی ہے۔امی کہتی تھیں کہ بیٹا یہ دو زمینیں الگ الگ وقتوں میں پختہ ہوئیں۔پختہ زمین کی نا ہمواری کچی زمین کے مقابلے میں زیادہ خطرناک ہوتی ہے۔امی کچھ اس طرح اپنے پاؤں رکھتیں کہ جیسے زمین اچانک ہموار ہو گئی ہو۔ دیکھتے دیکھتے زندگی سنبھل جاتی۔دو کمرے کی دو زمینوں کے درمیان قطع کرنے والی ایک ابھری ہوئی پختہ زمین، کتنی مختصر اور کتنی خطرناک ہے۔ان زمینوں کو دیکھتے ہوئے اور ان پر قدم رکھتے ہوئے کئی دہائیاں گزر گئیں۔
بنگلے کی کھڑکی کا دروازہ راستے کی طرف کھلتا ہے ۔اس کھڑکی سے گرم موسم میں ہلکی ٹھنڈی ہوا آتی ہوئی محسوس ہوتی تھی۔امی کبھی کبھی یہاں بیٹھ جاتیں اور ٹھنڈی ہوا آنے لگتی۔بجلی کا پنکھا کتنی گرم ہواؤں کا پنکھا تھا۔ہاتھ کا پنکھا اپنی ثقافتی ارضیت کے ساتھ تھا۔کلائی تھک جاتی یا مڑ جاتی تھی،پنکھے کی رفتار کم ہو جاتی،یا پنکھا چند لمحوں کے لیے خاموش ہو جاتا۔جھپکی آجاتی،آنکھ کھل جاتی۔ہاتھ کا پنکھا کتنا ہلکا اور کتنا بھاری تھا۔ہاتھ کا پنکھا گرمی کا موسم تھا،اور گرمی کا موسم ہاتھ کا پنکھا۔بجلی چلی جاتی،کبھی دیر سے آتی ،کبھی جلدی آجاتی۔ایک نگاہ ہمیشہ اس موسم میں،ثقافتی ارضیت پر مرکوز رہتی۔یہ مرکزیت مستقل طور پر زندگی میں داخل تھی،زمانہ دھیرے دھیرے کسی اور ثقافت کی طرف جا رہا تھا۔بجلی کا پنکھا کبھی تیز ہو جاتا،اور کبھی صرف ہلتا ہوا محسوس ہوتا۔جیسے کہ ہاتھ کا پنکھا چھت کی طرف منتقل ہو گیا ہو۔
آج دھوپ بہت تیز ہے۔کل بھی دھوپ بہت تیز تھی،مجھے اس کمرے میں آئے ہوئے زیادہ وقت تو نہیں ہوا،مگر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ کل کی دھوپ آج کی دھوپ سے مل گئی ہے۔ جو آج کی دھوپ ہے وہ کسی اور دن کی دھوپ بن جائے گی۔کمرے کا موسم پہلے کی طرح گرم ہے۔چھت بدستور تپ چکی ہے۔
سامنے کی کھڑکیاں نہ جانے کب سے بند ہیں ۔ جو کھڑکی تھوڑی بلندی پر ہے اس کا ایک پٹ کچھ اس طرح کھلا ہے جیسے کہ اسے انتظار ہو سامنے کی بند کھڑکیوں کے کھلنے کا۔کھڑکی کا کون سا پٹ کھلا یا بند ہے،اس کا فیصلہ کئی بار دیکھنے کے باوجود نہ ہو سکا۔نظر ان دونوں پٹوں میں الجھ جاتی ہے جیسے کہ کوئی جالا سا ہو۔آس پاس کے جالے سے گھرے ہوئے ان پٹوں نے کیسی عمارت تعمیر کی ہے۔ایک تار سا نیچے کی طرف آتا اور کبھی آنکھوں کی طرف آ تا ہوا محسوس ہوتا ہے۔
کون سا پٹ کھلا یا بند ہے؟۔یہ دھوکہ نظر کا ہے یا کسی اور خیال کا جو نظر میں آ کر ٹھہر گیا ہے۔آنکھوں کو ملتے ہوئے اب اتنی دیر ہو چکی ہے کہ کوئی صورت باقی نہیں رہی۔جالے کھڑکی میں ہیں یا دیکھنے والے کی آنکھ میں۔ ایک کھڑکی نے فضا کو کتنا نامانوس بنا دیا۔اس سے کیا فرق پڑتا ہے کہ کھڑکی کا کون سا پٹ کھلایا بند ہے۔فرق تو پڑتا ہے۔وہ بھی اس صورت میں کہ دھوپ اور بارش کا اس کمرے میں داخلہ ایک ہی طرح سے ممکن نہیں۔مگر اس کا فیصلہ اسی وقت ممکن ہے جب کمرے میں بیٹھ کر دھوپ اور بارش کو کچھ اس طرح دیکھا جائے کہ جیسے آنکھیں دھوپ اور بارش دونوں کی منتظر ہوں۔لہذا میں نے شعوری طور پر کھڑکی کی طرف دیکھنا بند کر دیا۔آج نہ جانے کیوں یہ خیال آیا کہ اس کمرے میں ٹھہر کر تھوڑا وقت گزارا جائے۔یوں تو اسی کمرے سے ہو کر بنگلے کی طرف جانا ہوتا ہے لیکن قدم ٹھہرتے نہیں بلکہ کچھ تیز ہو جاتے ہیں۔بنگلے اور کمرے کے درمیان، فاصلہ کتنا کم تھا،فاصلہ کتنا کم ہے۔کیا واقعی یہ وہی کمرہ اور بنگلے کا کمرہ ہے۔کھڑکی کا ایک پٹ نہ جانے کب سے آدھا ادھورا کھلا ہوا ہے۔اسے کس کا انتظار ہے کہ وہ پوری طرح کھل جائے یا پوری طرح بند ہو جائے۔کبھی تیز ہوا کا جھونکا ان پٹوں کو ہلا دیتا ہے اور اسی آواز سے باہر کے موسم کا کچھ اندازہ ہوتا ہے ۔بارش کے چھینٹے اندر آ جاتے ہیں ۔
ہوا کا جھونکا اور بارش کی بوندیں،
موسم کتنی تیزی سے تبدیل ہو جاتا تھا۔ایک موسم نہ جانے کب سے یہاں ٹھہرا ہوا ہے۔کچھ جالے،کچھ غبار اور کچھ دیگر اشیاء۔شاید غبار زیادہ ہے جالوں کے مقابلے میں۔ایک پٹ سے کیا اتنا غبار آ سکتا ہے۔نہ جانے کیوں اچانک قدم رک گئے اور ذہن نے ٹھہرنا گوارا نہ کیا۔اسی لیے یہاں سے تیز تر گزرنا ہوتا ہے۔
خیال کتنا بھاگتا جاتا ہے۔غبار نے اپنی موجودگی کچھ اس طرح درج کرائی کہ جیسے وہ یہاں کا اصل مکین ہو۔ایک کمرہ اور اس کی ایک طاق پر رکھی ہوئی تسبیح۔تسبیح کے دانے اس غبار آلود فضا میں کتنے روشن ہیں۔
دیکھتے دیکھتے دن کا حصہ گزرنے لگتا ہے۔گھڑی کی طرف دیکھا تو سپہر کے چار کاعمل تھا۔گھڑی چل رہی تھی یا رکی ہوئی تھی،بس اتنا یاد ہے کہ چار بج رہا تھا۔یہاں آےہوئے کتنا وقت گزر چکا تھا،اس کا ٹھیک ٹھیک اندازہ لگانا مشکل ہے۔گھڑی نہ جانے کب سے اپنے وقت کا اعلان کر رہی ہے۔جیسے کہ اسے اس شخص کا انتظار ہو جو اس کے وقت کے ساتھ اپنے وقت کا آغاز کر سکے۔ٹھہرا ہوا وقت ہمیشہ ٹھہرا ہوا نظر نہیں آتا ۔اسے دیکھتے ہوئے نہ جانے کیوں ایک خوف کا احساس ہوتا ہے جیسے کہ دیکھنے والا وقت سے بہت پیچھے رہ گیا ہے۔یہ گھڑی کب سے اسی طرح دیوار سے لگی ہوئی ہے۔کبھی یہ گھر سے باہر تھی یا ممکن ہے اب بھی وہ گھر سے باہر ہو مگر اس وقت وہ کچھ اس طرح گھر کے اندر دکھائی دے رہی ہے کہ جیسے اسے ایک گھر کی دو دیواروں پر دو طرح سے اپنی موجودگی کا احساس دلانا ہے۔شاید کھڑکی کا ایک پٹ گھڑی کی اس روش کے ساتھ کھلا اور بند ہے۔
وقت کس کا تھا اور کس کے لیے تھا۔گزرتا ہوا وقت کہیں گزرا ہوا وقت تو نہیں تھا۔جو وقت دیکھنے والے کی آنکھوں میں ٹھہرا ہوا تھا،وہ کسی اور کا تھا،یا اسے کسی نے ایک امانت کے طور پر اس کے ساتھ کر دیا تھا۔
یہ کمرہ تو وہی کمرہ ہے۔کھڑکیاں در و دیوار،ان کے درمیان کچھ رکھی ہوئی اشیاء۔
رات کا وقت اس کمرے کے لیے صرف رات کا وقت نہیں تھا۔مگر یہاں تک آتے آتے دو دہائیاں گزر گئی تھیں
۔دھوپ کی تمازت اور شام کی چادر،
کمرہ آج کتنا تنگ دکھائی دیتا ہے۔وہ جگہ جہاں کبھی ایک چوکی رکھی ہوئی تھی وہ خالی ہے۔چوکی کمرے کی دوسری جانب رکھی ہوئی ہے،لیکن یہ وہ چوکی نہیں۔جی چاہا کہ اس پر بیٹھ جاؤں اور وہاں سے اس خالی جگہ کو دیکھوں،جہاں سے زندگی کتنی بڑی اور روشن دکھائی دیتی تھی۔ایک کمرے کے ایک کونے میں،درد سے بھیگا ہوا وجود۔
کمرے کی ایک خالی جگہ نے مجھے اسی کمرے میں ہونے کا احساس دلایا۔یہ ہونا بھی کیا ہونا ہے۔بس اس خالی پن کے علاوہ اور یہاں کیا رکھا ہے۔
کمرے کی زمین کو صاف کرتے ہوئے،غبار کا خیال بہت دور جا پڑا تھا۔پانی دیکھتے دیکھتے کمرے سے باہر کی طرف نکل جاتا۔پانی کی رفتار کتنی تیز تھی۔گرجے یہ سفر نشیب کا نہیں تھا۔
گھڑی کی طرف دیکھا تو ابھی بھی چار کاعمل تھا۔پانی کے ساتھ کتنا غبار نکلا تھا۔نہ جانے کب سے کمرے کی زمین بھیگی نہیں تھی۔
“ایک بھیگا ہوا موسم”
یہ کوئی فقرہ یا جملہ تو نہیں تھا۔
زندگی کی حقیقت تھی یا خواب کی کوئی صورت
“ایک بھیگا ہوا موسم”
زندگی کتنی آسودہ تھی۔بھیگے ہوئے موسم میں خشکی کہیں پاس ہی موجود تھی۔خشکی بھیگ بھیگ جاتی اور پھر صبح ہو جاتی۔
پانی ابھی سوکھا نہیں تھا۔پچھلے سفر میں ابا کا پاؤں پھسل گیا ۔آج وہ ناراض تھے ۔کہنے لگے پانی پختہ زمین پر اس وقت تک رہتا ہے جب تک کوئی پھسل نہ جانے۔ ان کی نظر میں آج بھی وہی پانی ہے،جس پر ان کا پاؤں پھسلا تھا۔
( ایک کہانی کا حصہ)
سرورالہدی
پانچ جنوری 2024