یا علی
گردنوں پر چل رہے ہیں روز خنجر یاعلی
ہر طرف اِس شہر میں ہیں خوں کے منظر یاعلی
مورچوں پر ہو رہا ہے جمع پھر سامانِ جنگ
آ رہے ہیں پھر وہاں لشکر پہ لشکر یا علی
منبروں پر بیٹھنے والے تو ہیں خانہ نشیں
ہم ہی دینے جائیں گے میدان میں سر یا علی
حاکموں نے دے دیا ہے جب سے مسماری کا حکم
کیا بتائیں لُٹ رہے ہیں کون سے گھر یا علی
ہے عدو کو پرچئہ حقِِّ رہائش کی طلب
کل نہ ہو جائیں کہیں ہم گھر سے بے گھر یاعلی
منصفوں کے سامنے اب کوئی شنوائی نہیں
بند ہیں ہم پر سبھی فریاد کے در یاعلی
خوف میں گزرے ہے شب تو جائے ہے دہشت میں دن
سُن رہے ہیں ہم ابھی سے شورِ محشر یاعلی
ہم نے تو چاہا نہ آئے آنکھ میں آنسو کوئی
خشک ہوتا ہی نہیں یہ دیدہ۶ تر یاعلی
میری منزل کی طرف یہ کیا مجھے لے جائیں گے
روز جادوں کو بدل لیتے ہیں رہبر یاعلی
آپ کی اُمّت میں بھی کچھ لوگ ہیں ملّت فروش
ہم خجل ہیں آپ سے یہ بات کہہ کر یاعلی
اور اب اِس کے سوا کوئی نہیں ہے راستہ
یا غلامی دشمنوں کی یا کٹے سر یاعلی
آپ میرے ساتھ ہیں تو با لیقیں ہٹ جائیں گے
آ رہے ہیں راہ میں تو آئیں پتھر یاعلی